کیس اسٹڈی

بنگلادیش- ملکی کیس اسٹڈی جائزہ

بنگلادیش کے بارے میں کیس اسٹڈی جو انسانی حقوق اور جمہوریت رپورٹ 2013ء کا حصہ ہے.

بنگلادیش میں سیاسی تشدد کا خطرہ اب بھی باعث تشویش ہے۔ اگرچہ احتجاج سے متعلق سیاسی تشدد جنوری 2014ء میں بنگلادیش کے پارلیمانی انتخابات کے بعدختم ہوگیا، لیکن این جی اوز کی اطلاعات کے مطابق ماورائےعدالت قتل اور جبری گمشدگی کے واقعات کی تعداد میں انتخابات کے بعد کے مہینوں میں اضافہ ہوا۔ 2014ء میں نئی پالیسیوں اورضوابط تشکیل پانے سے بھی شہری معاشرے کو دی گئی گنجائش اورمیڈیا کی آزادی پر پابندیوں کے بارے میں خدشات پیداہوئے۔ بنگلادیش کے 10ویں پارلیمانی انتخابات 5 جنوری 2014ء کو ہوئے جن میں سابق اپوزیشن 18جماعتی اتحاد بشمول بنگلادیش قوم پرست پارٹی (بی این پی) نے حصہ نہیں لیا کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ ایک غیر جانبدار کئیر ٹیکر حکومت کی عددم موجودگی میں انتخابات شفاف اور آزادانہ نہیں ہو سکیں گے۔ نصف سے زائد پارلیمانی نشستوں پرمقابلہ نہ ہونے سے عوامی لیگ کو دوسری بارمسلسل کامیابی حاصل ہوگئی۔ 21 اموات انتخابات کے دن ہوئیں اوراسکولوں میں قائم 100 سے زیادہ پولنگ مراکز جلادئیے گئے۔انتخابات کے بعد سے بی این پی نے پر امن احتجاج کا عہد کر رکھا ہے اور 2013ء کے مقابلے میں جبری عام ہڑتالیں اور ٹرانسپورٹ بند کئے جانے کے واقعات کم ہوئے ہیں۔ 6 جنوری کو ایک بیان میں اس وقت کی وزیر برائے انسانی حقوق بیرونس سعیدہ وارثی نے بنگلادیش کی تمام سیاسی جماعتوں پرسیاسی احتساب کے لئےمل کر کام کرنے کے لئے زور دیا۔ انہوں نے تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سےہراساں کرنے اور ناجائز تشدد کی مذمت کی اور تمام سیاسی جماعتوں پرمستحکم جمہوری احتساب کے لئےمل کر کام کرنے کے لئےاور آئندہ مکمل شرکت والے انتخابات کے لئے آمادگی اوراستعداد کی تعمیر پر زور دیاجس میں کوئی خوف یا انتقامی کارروائی نہ ہو۔ 22 جنوری کو برطانوی ہائی کمشنر بنگلا دیش نے وزیر برائے قانون، انصاف اور پارلیمانی امور اور وزیر برائے مواصلات اوروزیر برائے تجارت سے اپنی ملاقات میں تشدد کی مذمت کی۔ تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے مقامی ذیلی ضلعوں میں مارچ کے انتخابات میں امیدوار کھڑے کئے ۔ پہلے دومرحلوں میں بی این پی سے پیچھے رہنے کے بعد آخری تین مرحلوں میں عوامی لیگ نے زیادہ تر نشستیں جیت لیں۔اس کے نتیجے میں این جی اوز اورمیڈیا میں ہراسانی اورانتخابی عمل میں دخل اندازی کی خبروں میں نمایاں اضافہ ہوگیا۔ بیرونس سعیدہ وارثی نے بنگلادیشی ہائی کمشنر برطانیہ سے 13 مئی کو ملاقات میں اس مسئلے پر بات کی۔ بیرونس نے بنگلا دیشی انتخابی کمیشن سے مکمل اورشفاف تحقیقات کرکے مناسب کارروائی کا مطالبہ کیا۔ ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی کے اس وقت کے وزیرایلن ڈنکن نے مارچ میں بنگلا دیش کا دورہ کیا۔ وزیراعظم شیخ حسینہ، حزب اختلاف کے قائد، وزیرخزانہ، وزیرخارجہ اوربی این پی چئیرپرسن بیگم ضیاسے ملاقات میں انہوں نے ایک پائیدار تر سیاسی تصفئیے کے لئے جلد پیش رفت کی ضرورت پر تبادلہ خیال کیا،اوراصرارکیا کہ جمہوریت میں تشدد کی کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ ہیومن رائٹس واچ رپورٹ 2013ء میں انکشاف ہوا کہ بنگلادیش کی قانون نافذ کرنے والی تمام ایجنسیوں کے لئے سزا سے بریت ایک سنگین مسئلہ ہے۔ این جی اوز کی رپورٹ کے مطابق 2014ء کے پہلے چھ ماہ میں 100 ماورائے عدالت قتل ہوئے۔ جنوری اور فروری میں فائرنگ کے تبادلے میں ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہوگیاجو مبینہ طور پر قانون نافذ کرنے والوں کی کارروائی بتائی جاتی ہے اور این جی اوز نے اس کی مذمت کی۔ مئی میں دن دھاڑے سات افراد کو اغوا کرلیا گیا اور بعد میں نارائن گنج میں ایک دریا سےان کی لاشیں ملیں اور نتیجے میں داخلی اور بیراونی تنقید ہوئی۔ الزام سامنے آیا کہ ریپڈ ایکشن بٹالئین کے اراکین ان کے اغوا اورقتل کے ذمےدارہیں جسے بنگلا دیشی پارلیمنٹ نے اکسایا۔ حکومت نے وعدہ کیاکہ مجرموں کا سراغ ملنے پران کو کوسزا دی جائیگی۔ بٹالئین کےتین سابق اراکین نےہلاکتوں کے باب میں اپنے کردارکا اعتراف کرلیا لیکن تاحال ان پر الزامات عائد نہیں کئے گئے ہیں۔

.

کیس اسٹڈی انسانی حقوق اور جمہوریت رپورٹ2013ء کا حصہ ہے.

Updates to this page

شائع کردہ 16 اکتوبر 2014