جنگ عظیم اول میں وکٹوریہ کراس پانے والے پاکستانی میر دست
جنگ عظیم اول میں سب سے بڑا اعزازوکٹوریہ کراس پانے والے پاکستانی میر دست کی کہانی.
پہلی جنگ عظیم میں برصغیر ( آج کا پاکستان )کے تین فوجیوں نے اپنی شجاعت کے صلے میں برطانیہ کا سب سے بڑا فوجی اعزاز وکٹوریہ کراس حاصل کیا۔ صد سالہ یادگاری تقریبات کے موقع پربرطانوی عوام نے ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے کانسی کی تختی ان کے وطن میں نصب کروائی ہےجس پر ان کے نام درج ہیں۔ اب یہاں ان کی کہانی ملاحظہ کیجئیے.
نام : میردست
تاریخ پیدائش: 3 دسمبر 1874ء
جائے پیدائش: تیراہ (آج کا پاکستان)
واقعہ کی تاریخ: 26 اپریل 1915ء
جائے وقوع : وائیپرس، بلجئیم
عہدہ : جمعدار(مساوی لفٹنینٹ )
رجمنٹ : کوکز رائفلز، فرنٹئیر فورس جو 57 وائلڈز رائفلز سے منسلک تھی
میر دست 3 دسمبر کو تیراہ کی وادی میدان میں پیدا ہوئے جو اب پاکستان کے شمال مغربی سرحدی صوبے خیبر پختونخواہ میں واقع ہے۔انہوں نے برٹش انڈین آرمی میں 1894ء میں شمولیت اختیار کی وہ پہلی جنگ عظیم سے پہلے شمال مغربی سرحد اوروزیرستان میں خدمات انجام دے رہے تھے۔ وہ مارچ 1915ء میں فرانس پہنچے، میردست اس بھارتی فوجیوں کے ایک بڑے دستے کا حصہ تھے جو ہلاک یا زخمی ہونے والوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے خلا کو پر کرنے گیاتھا۔ وہ57 وائلڈز رائفلز، کی لاہور ڈویژن کی 7ویں بریگیڈ میں ایک جمعدارتھے جب انہیں یہ اعزاز دیا گیا.
ان کی لاہور ڈویژن کو فرانسسییوں کے ساتھ مل کر 26 اپریل کو جرمنوں کے خلاف جوابی حملے کا حکم ملا۔ بھاری نقصان کے باوجود میردست اور کچھ دوسرے فوجی جرمن خندقوں کے قریب پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ جرمنوں نے اسی وقت کلورین گیس فضا میں چھوڑدی جس سے کئی فوجی بوکھلا کے پیچھے ہٹ گئے۔ میردست ان چند برطانوی اور بھارتی فوجیوں میں شامل تھے جو وہیں ڈٹے رہے یہاں تک کہ رات ہوگئی اورانہیں واپسی کا حکم دے دیا گیا۔ اس واقعے کی تفصیل کچھ یوں ہے:
26 اپریل 1915ءکو وائیپرس کے مقام پر اپنی نمایاں شجاعت اور زبردست اہلیت مظاہرہ کیا جب وہ حملے میں اپنی پلاٹون کی قیادت کر رہے تھے اور حملے کے بعد بھی انہوں نے رجمنٹ کےمختلف فوجیوں کو(جب وہاں کوئی برطانوی افسر باقی نہیں بچا تھا ) اکھٹا کیا اور انہیں زیر کمان رکھا یہاں تک کہ واپسی کا حکم ملا۔ جمعدار میر دست نے اس روز شاندار جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے آٹھ برطانوی اور بھارتی افسروں کواپنی حفاظت میں لے لیا جبکہ وہ خود بھی بھاری فائر کی زد میں تھے.
میر دست خود بھی زخمی ہوئے اور برائٹن پویلین میں زیرعلاج رہے جو ایک اسپتال بنادیا گیا تھا۔ شاہ جارج پنجم نے انہیں خود وکٹوریہ کراس سے نوازا جو وہیں پویلین کے میدان میں دیا گیا ۔ ان کا انتقال 1945ء میں پشاور میں ہوا .