خبروں کی کہانی

پاکستان کے نام بیرونس وارثی کا ایک خط

پاکستان کے نام ایک کھلے خط میں برطانوی وزارت خارجہ کی وزیر بیرونس سعیدہ وارثی نے اختتام پذیر ہونے والے سال کا جائزہ لیتے ہوئے مستقبل کی آزمائشوں پر گفتگو کی ہے ۔

اسے 2010 to 2015 Conservative and Liberal Democrat coalition government کے تحت شائع کیا گیا تھا
Baroness Warsi

عزیز پاکستان،

سال کا یہ وقت دنیا بھر میں تقریبات منانے کا ہے جب بہت سے لوگ برطانیہ اور پاکستان میں کرسمس مناتے ہیں اور دنیا بھر میں پاکستانی قائد اعظم کی پیدائش کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ ۔ یہ تعطیلات سال کے اختتام کا اشارہ دیتے ہوئے ماضی پر ایک نظر ڈال کر مستقبل کے چیلنجز پر غور کرنے کا ایک موقع فراہم کرتی ہیں.

یہ آپ کی تاریخ کا انتہائی اہم سال رہا ہے۔ برطانیہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات کی ذمہ دار ایک وزیر اور پاکستانی پس منظر رکھنے والی ایک پر فخربرطانوی شہری کی حیثیت سے اس سال پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ اقتدار کی جمہوری منتقلی میرے لیے باعثِ مسرت تھی جب میں برطانوی وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون کے ہمراہ پاکستان کے دورے پر آئی۔ برطانوی وزیرِ اعظم ان تاریخی انتخابات کے انعقاد کے بعد پاکستان کا دورہ کرنے والے پہلے سربراہِ مملکت تھے اور ہم ان افراد کی مثبت سوچ اور امید سے بہت متاثر ہوئے جن سے ہماری ملاقات رہی۔ اس مثبت جذبے کو اپنا کر آگے لےجانا بہت ضروری ہے۔

میں یوروپین یونین کے ساتھ جی ایس پی پلس تجارتی معاہدے کے حصول پر بھی آپ کو مبارکباد پیش کرنا چاہونگی۔ ہم نےبرطانیہ میں آپ کی حمایت کے لئے انتھک کام کیا جس کا نتیجہ یورپی منڈیوں میں پاکستانی تجارت کی بے مثال رسائی ہے، جو کہ اگلے سال تک پانچ سو ملین پاؤنڈ اسٹرلنگ تک متوقع ہے۔ میں جانتی ہوں کہ اس سے آپ کی نوجوان نسل کو شدت سےدرکار مواقع فراہم ہونگے۔ ایک مضبوط پاکستانی معیشت ایک مضبوط تر پاکستان کی طرف لے جائیگی۔

لیکن میں آپ کو مسلسل درپیش آزمائشوں کے لیے فکرمند ہوں۔ ہر تین میں سے ایک پاکستانی آج بھی پچاس روپوں سے کم پر اپنا دن گذارنے پر مجبور ہے۔ تقریباً ایک کروڑ بیس لاکھ بچے اسکول جانے سے محروم ہیں۔ آپ کی آبادی میں سے انکم ٹیکس ادا کرنے والوں کا تناسب 0.5 فی صد سے بھی کم ہے۔ قومی قرضہ ساٹھ ارب ڈالر ہے جس کامطلب یہ ہے کہ پاکستان کی وفاقی آمدنی کا ساٹھ فی صد سے زائد حصہ ہر سال سود اور قرضوں کی ادائیگی میں خرچ ہوجاتا ہے۔ اس کرسمس کے موقع پر میں پشاور کے آل سینٹس چرچ میں ستمبر میں ہونے والی دہشت گردی میں ہلاک ہونے والوں کے بارے میں بھی سوچنے پر مجبور ہوں۔ 2013ء کے دوران میں ایک بار پھر اقلیتوں اور معصوم شہریوں پر کئی حملے کیے گئے۔ آج ہمیں یہ سوال پوچھنا چاہیے کہ کیا آج پاکستان میں زندگی محمد علی جناح کے خواب کے مطابق گذاری جارہی ہے ، جیسا کہ بانی پاکستان نے فرمایا’’آپ آزاد ہیں؛ آپ عبادت کے لیے اپنے مندروں میں جانے کے لئے آزاد ہیں ،آپ اپنی مسجدوں میں یا مملکت پاکستان میں کسی بھی عبادت گاہ میں جانے میں آزاد ہیں آپ خواہ کسی مذہب،فرقے یا عقیدے سے تعلق رکھتے ہوں امورمملکت کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔”

ہم آپ کو، یعنی پاکستان کو رفیق اور قریبی شریک کار قرار دیتے ہیں، جس کے ساتھ ہمارے باہمی مفادات موجود ہیں اور جس کے ساتھ ہم درپیش مسائل کے بارے میں دوستانہ گفتگو کرسکتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم آپ کی کامیابی کو اپنی کامیابی اور آپ کو درپیش آزمائش کو اپنے لیے آزمائش سمجھتے ہیں۔ ہمارے امدادی پروگرام میں پاکستان کے لیے حصہ دنیا کے بڑے حصوں میں سے ایک ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے امدادی پروگرام کی زیادہ توجہ پاکستان میں شعبہ تعلیم پرمرکوز ہے۔ آپ کے مستقبل پر ہماری سرمایہ کاری 2015ء تک چالیس لاکھ بچوں کے لیے تعلیم ، جن میں سے نصف تعداد لڑکیوں کی ہے، اور مزید پینتالیس ہزار اساتذہ کی تعیناتی اور تربیت میں مددگار ہوگی۔یہ ہمارے کمٹ منٹ کی مزید دلیل ہے جس کو تقویت برطانیہ میں رہائش پذیر پاکستانی پس منظر کے حامل برطانوی شہریوں کی جانب سے سالانہ 627 ملین پاؤنڈ اسٹرلنگ کی سالانہ ترسیل سے ہوتی ہے؛ وہ آپ کے مضبوط ترین حامی اور بلند آہنگ وکیل ہیں۔

آپ کے راستے میں معاشی اصلاحات ، بہتر حکومت سازی اور بجلی کی شدیدقلت پر قابو پانے جیسی دشواریاں حائل ہیں۔ ہم اس راستے پر آپ کے ساتھ ہیں۔ میں جس برطانوی حکومت کا حصہ ہوں، اس نے اپنی قومی ادائیگیوں کو یقینی بنانے کے لیے کئی تکلیف دہ فیصلے کیے ہیں۔ اس لیے آپ کی راہ میں حائل ہونے والی مشکلات کا ہمیں اندازہ ہے لیکن آپ کے لیے ہمارا مشورہ ڈٹے رہنے کا ہے۔ کیونکہ ہر خاندان جانتا ہے کہ اپنی موجودہ نسل کو سہولت فراہم کرنے کے لیے آنے والی نسلوں پر محرومیوں کا بوجھ ڈال دینا غیر ذمہ داری ہے.

برطانوی حکومت میں ایک وزیر کی حیثیت سے پاکستان اور برطانیہ کے درمیان تعلقات میں پہلے سے زیادہ مضبوطی میرے لیے باعثِ مسرت ہے۔ یہ تعلقات ہمارے سیاسی روابط سے کاروباری معاملات ، کھیل اور ثقافت کی مشترکہ دلچسپیوں اور ہمارے گہرے خاندانی رشتوں پر قائم ہیں۔ یہ تمام اسباب ان باہمی روابط کو متحرک کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو ضرورت پیش آنے پر برطانیہ دل کھول کر اور فوری طور پر آپ کی مدد کے لیے موجود ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے پاکستان میں 2005ء میں آنے والے تباہ کن زلزلے اور 2010ء کے ہولناک سیلاب کے بعد متاثرین کی ہر ممکن مدد کی۔ مجھے ان دونوں آفات کے فوراً بعد پاکستان کے دورے کا موقع ملا۔ میں نے بذات خود پاکستان کے نوجوانوں میں وہ جذبہ دیکھا جس نے انہیں امدادی کاروائیوں کے لیے متحرک کیا۔ میں نے آپ کی تکلیف محسوس کی اور مجھے بلاتفریق پس منظر، نسل اور مذاہب ، برطانوی شہریوں کی جانب سے ضرورت کے وقت پاکستان کی مدد کودیکھ کر فخر ہوا.

میری پیدائش شمالی برطانیہ کے ایک چھوٹے سے قصبے میں ہوئی۔ لیکن میرے والدین نے میری پرورش اور تربیت کے دوران مجھے پاکستان کوجاننا،اسے سمجھنا اور اس سے محبت کرنا سکھایا۔ اس ملک نے اپنے پر صعوبت قیام کے 65 سال کے بعد بہت کچھ حاصل کرلیا ہے۔ اس ملک کو مشرقی پاکستان سے خوں ریز علیحدگی بھی پیش آئی۔ اپنی تاریخ میں آپ جمہوری حکومتوں کے نامکمل ادوار، بدعنوانی اور دہشت گردی کی لعنت کا شکار ر ہے ہیں۔ 2014ء کے آغاز پرمجھے یقین ہے کہ آپ ماضی کی ناکامیوں سے چھٹکارہ حاصل کرنے کی قوت اور عزم رکھتے ہیں۔

آپ ناقابلِ یقین حد تک متنوع، متحرک اور قابلِ فخر قوم ہیں۔ پاکستان میں دنیا کے عظیم ترین پہاڑی سلسلے،بے حد زرخیز زمین اور قدیم ترین آثارِ قدیمہ موجود ہیں۔ آپ نے دنیا کو ‘فاتح’ جہانگیر خان، ‘آواز’ نصرت فتح علی خان اور عبدالستار ایدھی جیسا جیتا جاگتا فرشتہ صفت انسان دیاہے.

آپ کی ٹیکسٹائل صنعت پوری دنیا میں منفرد ہے۔ 2010ء کے اس تاریخی کابینہ اجلاس میں جس میں پہلی بار ایک برطانوی مسلمان کابینہ وزیر شامل ہوئی اس وقت وقت میرا زیب تن کیا ہوا شلوار قمیص کا جوڑا پاکستان میں تیار کیا گیا تھا۔ آپ کی آبادی نوجوان اور متحرک ہے، اعلٰی ٹیکنالوجی کا آگے بڑھتا شعبہ، پہلے سے زیادہ آواز بلند کرنے والی اور سرگرم سول سوسائٹی اور ملالہ یوسف زئی جیسے بہادر افراد کی مثال موجود ہے۔ آپ کے پاس فخر کرنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا، میرے دل کا ایک حصہ ہمیشہ پاکستان کے ساتھ دھڑکتار ہے گا۔

اس اہم دن کے موقع پر میں پاکستان کو، ہر پاکستانی کو یہ سوچنے کی دعوت دیتی ہوں کہ کیا آپ کو یقین ہے کہ پاکستان آج جس مقام پر ہے، اور جس طرف گامزن ہے، میرے بچوں اور ان کے بچوں کے لیے بھی محبت اور فخر کا باعث بنے گا؟ میں زوردونگی کہ 2014 ءکو اس پاکستان کی تکمیل کے لیے مختص کردیا جائے جو ہم سب کے لیے قابلِ فخر ہو۔ میں یومِ قائد اعظم، کرسمس اور ایک پُرامن اور درخشاں نئے سال پر آپ سب کے لیے دلی خواہشات کا اظہار کرتی ہوں۔

سینئیروزیر برائے وزارت خارجہ

بیرونس وارثی

Updates to this page

شائع کردہ 25 دسمبر 2013