بچوں کی شادیاں- مارک میلالیوکی تحریر
افغانستان میں برطانوی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی ڈیفڈ کے سربراہ کامضمون.
کئی ثقافتوں میں شادی انسانی زندگی میں ایک اہم سنگ میل ہے۔ کابل کے خوبصورت شادی ہال، افغان معاشرے میں اس کی زبردست اہمیت کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ہفتے کے روزبرطانیہ کے کسی گاوں میں جانا ہو تو آپ کومقامی گرجا گھرسے شادی کی گھنٹیاں سنائی دیں گی۔ شادی بے شک خوشی کا ایک موقع ہوتا ہے.
لیکن اس وقت کیا ہوتا ہے جب شادی دو بالغوں کے درمیان باہمی رضامندی سے نہ ہو؟ کیا ہوتا ہے جب ان میں سے ایک ابھی بچہ ہو؟
دنیا بھر میں بچپن میں شادی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق ترقی پزیر دنیا میں تقریبا 11 فی صد لڑکیاں 15 سال کی عمر سے پہلے ہی بیاہ دی جاتی ہیں۔ مجموعی طور سے یہ تعداد ایک نسل پہلے کے مقابلے میں کم ہورہی ہے ۔ لیکن اب بھی بہت زیادہ ہے.
افغان شہری قوانین کے مطابق لڑکیوں کی شادی کی کم از کم عمر 16 سال اور لڑکوں کی 18 سال ہے۔ اسلام کہتا ہے کہ شادی کرتے وقت اس کے بارے میں پوری سمجھ بوجھ ہونا چاہئیے۔ افغانستان میں تقریبا 15 فی صد لڑکیوں کی شادی 15سال کی عمر سے پہلے ہی ہوجاتی ہے.
بچپن میں شادی کے کئی نقصان ہیں۔ پہلا تو یہ کہ لڑکیوں کی صحت کے لئے برا ہے۔ حمل سے کمسن جسم کو ضرر پہنچتا ہے: حمل سے متعلق پیچیدگیاں 15 تا 19 سال کی عمر میں اموات کی بڑی وجہ ہیں۔ اس عمرمیں چونکہ لڑکیاں جسمانی طور سے مضبوط نہیں ہوتیں ان کے بچےیا تو مردہ پیداہوتے ہیں یا پیدائش کےپہلے ہفتوں میں ہی انتقال کرجاتے ہیں۔ جو بچ جاتے ہیں وہ قد میں چھوٹے اورزندگی بھرجسمانی طور سے کمزور رہتے ہیں۔
دوسرا، شادی سے بچپن ادھورا رہ جاتا ہے۔اکثر بچے، خاص طور پر لڑکیاں اسکول جانا چھوڑ دیتی ہیں جس سے ان کے لئے اپنے گھریلو معاشی حالات بہتر بنانے کے مواقع کم رہ جاتے ہیں۔غیر تعلیم یافتہ ماوں کے بچے بھی اسکول کم ہی جا پاتے ہیں اور کوئی ہنر نہ سیکھنے سے غربت کا شکار رہتے ہیں۔
برطانوی وزیر اعظم اور یونی سیف نے 2014ء گرل سمٹ کا لندن میں 22 جولائی 2014ء کوانعقاد کیا جس کا مقصد بچپن کی اور کم عمری میں جبری شادی کے خاتمے کے لئے عالمی کوششوں کو متحرک کرنا تھا۔ اس میں حکومتوں، این جی اوز، دینی رہنماوں اور نوجوانوں نے اکھٹا ہوکے اپنے تجربات بانٹے اور بچپن کی شادی پر تبادلہ خیال کیا۔ سمٹ سے بچپن کی شادی کے مسائل کے بارے میں آگہی بڑھی اور رہنماوں میں اس میں تبدیلی لانے کی حوصلہ افزائی پیدا ہوئی۔ کابل میں این جی اوز، سرکاری افسران اورماہرین علم جمع ہوئے اور انہی مسائل پر بات چیت کی۔
اس وقت ہمیں معلوم ہے کہ بچپن کی شادی سے متعلق عوامل پیچیدہ اورایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ان میں غربت، تعلیم کی کمی، اورسماجی توقعات اوردباو شامل ہیں۔ بچپن کی شادی کے خاتمے کے لئے ان بنیادی اسباب سےنمٹنا ضروری ہوگا۔
تعلیم اس کے لئے سب سے طاقتور ہتھیار ہے۔ صرف اسکول جانے سے ایک لڑکی کا بچپن برقراررہتا ہے۔ اسکولوں میں لڑکیوں کو علم، ہنراورسماجی میل جول کا موقع ملتا ہے جس سے بچے اوراس کے والدین کی امنگوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ ڈیفڈ کے گرلز ایجوکیشن چیلنج جیسے منصوبے بچوں کو اسکول بھیجنے اور وہاں تعلیم جاری رکھنےپر توجہ دیتے ہیں۔ مجھے فخر ہے کہ افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم میں اس منصوبے کے ذریعے برطانیہ ایک ممتاز معاون ہے اور وزارت تعلیم کے ساتھ شراکت میں کام کررہا ہے۔
اس وقت عالمی توجہ بچپن کی شادی کے مسئلے پرمرکوز ہورہی ہے۔ ہمارے پاس لڑکیوں کا مستقبل روشن تر کرنے کا موقع ہے۔ لڑکیوں کو اس کوشش کا خود مرکز ہونا چاہئیے۔ ان کے حقوق اور زندگی داو پر لگی ہوئی ہے۔ لیکن ہم سب کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہے۔