وزیراعظم:نئی انسداد انتہا پسندی حکمت عملی ہمارے آج کے انتخاب کا واضح اشارہ ہے
حکومت کی نئی یک-قومی انسداد انتہا پسندی حکمت عملی کا آج اجرا ہوا ہے تاکہ تمام اقسام کی انتہا پسندی کو شکست دی جاسکے.
حکومت کی انسداد انتہا پسندی حکمت عملی , ملاحظہ کیجئیے جس کی اشاعت آج ہوئی ہے19) اکتوبر 2015ء(.
والدین کو تشویش تھی کہ ان کے 16 اور 17 سالہ بچے دہشت گردوں کے اثر میں آکے بیرون ملک جارہے ہیں، اب وہ ان بچوں کے پاسپورٹس منسوخ کئے جانے کی درخواست دے سکیں گے۔ وزیر اعظم نے یہ اعلان آج نئی انسداد انتہا پسندی حکمت عملی کا اجرا کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ دہشت گردی کے جرم میں سزایافتہ یا انتہا پسندانہ سرگرمیوں میں ملوث افراد کے بچوں یا اثرپزیر افراد کے ساتھ کام کرنے پر خودبخودپابندی عائد ہوجائِیگی.
نئی حکمت عملی میں ان چارستونوں کو بنیاد بنایا گیا ہے جن کا تعین وزیراعظم نے برمنگھم میں جولائی کی اپنی تقریر: میں کیا تھا
- یہ انتہا پسندی کے نظرئیے کی شدت سے روک تھام کرے گی اورحکومت کے ہر شعبے کو اس میں اپنا کردار اداکرنے کو یقینی بنائے گی.
- یہ معاشرے کی مرکزی آوازوں کی سرگرم حمایت کرے گی خاص طور پر ان کی جو ہماری عقائد کمیونٹیز سے بلند ہوتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان تمام عناصر کی حمایت جو انتہا پسندی سے جنگ کرنا چاہتے ہیں لیکن اکثربے اختیار ہوجاتے ہیں یا مباحثے میں ان کی آواز دب جاتی ہے.
- Iاس حکمت عملی سے انتہا پسند منتشر ہونگے کیونکہ اس کے ذریعے کلیدی بنیاد پرستوں کا سرگرم تعاقب کیا جائے گا جو سب سے زیادہ ضررکا سبب ہیں.
- اور اس کے ذریعے کمیونٹیز مزید مربوط ہونگی، علیحدگی اور الگ تھلگ کئے جانے کے احساس سے نمٹیں گی جو انتہا پسندوں کے پیغام کے لئے زرخِیز زمین فراہم کرتے ہیں.
گزشتہ برس نوجوان برطانویوں کے کئی کیسز سامنے آئے جو شام اورعراق میں داعش میں شمولیت کے لئے ملک چھوڑ گئے۔ اس کے علاوہ ایک کمسن برطانوی کا مقدمہ بھی چلا جو ملک کا سب سے کم عمر دہشت گرد ایک 15 سالہ لڑکا ہے جو دوسرے شخص کو بیرون ملک دہشت گردی کے لئے اکسا رہا تھا۔ پولیس کی تازہ ترین اعداد وشمار کے مطابق دہشت گردی کی روک تھام سے متعلق 338 گرفتاریاں ہوئیں جن میں 157 کا تعلق شام سے تھااور 56 افراد 20 سال سے کم عمر تھے۔ یہ رحجان بڑھ رہا ہے۔۔ آج کے اعلان کردہ نئے اختیارات جولائی میں وزیراعظم کے اعلان کردہ اقدامات کی توسیع ہیں ۔ یہ ایک کامیاب تجربے کے بعد متعین کئے گئے ہیں جس میں والدین نے اپنے سولہ سال سے کم عمربچوں کے پاسپورٹ منسوخ کئے جانے کے بارے میں پاسپورٹ آفس کو لکھا تھا تاکہ وہ دہشت گرد گروہوں میں شامل ہونے کے لئےشام اورعراق کا سفر نہ کر سکیں۔ اس وقت سے سولہ سال سے کم عمر کئی بچوں کو محفوظ کیا جاسکا ہے.
وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کا کہنا ہے:
میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ اسلامی انتہا پسندی کی شکست ہماری نسل کے لئے ایک جدوجہد ہے۔ یہ سب سے بڑےسماجی مسائل میں سے ایک ہے جس پر ہمیں قابو پانا ہے.
ہم جانتے ہیں کہ انتہا پسندی دراصل ایک علامت ہے۔ نظریہ اس کا بنیادی سبب ہے لیکن خطرات بڑھ رہے ہیں اور اس کی وجہ سے ایک نئے طریقہ کار کی ضرورت ہے۔ اس لئے ہمارے پاس ایک موقع ہے۔ کیا ہم آنکھ بند کرلیں یا سامنے آکر برطانوی اقدارکو سربلند کریں.
حکومت کی نئی انسداد انتہاپسندی حکمت عملی اس انتخاب کا واضح اشارہ ہے جو ہم نے اس زہریلے نظرئیے کے خلاف پورے عزم وہمت اوربرطانیہ کو عظیم تربنانے کے ہدف کے ساتھ اپنایا ہے۔ اس نئے طریقہ کار کا ایک کلیدی حصہ بچوں اور کمزورافراد کو بنیاد پرستی کے خطرے سے بچانا ہے جو کہ ہم والدین اورعوامی اداروں کو مشاورت، آلات اور عملی تعاون فراہم کرکے بااختیاربناکے کریں گے.
یہ حکمت عملی ڈسکلوژراوربارنگ سروس کے کردار کو بھی تقویت فراہم کرتی ہے تاکہ دہشتگردانہ یا انتہا پسندانہ جرائم میں سزایافتہ یا ملوث افراد کو خود بخود بچوں یا کمزورافراد کے ساتھ کام کرنے سے روک دیتی ہے جیسا کہ جنسی جرائم میں سزایافتہ افراد پر بچوں کے ساتھ کام کی پابندی ہے۔ ٹروجن ہارس سے متاثرہ اداروں میں پانچ ہزار کے قریب بچےموجود تھےجہاں برمنگھم کے کئی اسکولوں میں انتہا پسندوں نے کنٹرول حاصل کرلیاتھا۔ بچوں اور بالغوں کے ساتھ کام پر پابندی سے متعلق کئی فہرستیں مرتب رکھی جاتی ہیں۔