'اسرائیل- فلسطینی تنازعے کا منصفانہ ودیرپا حل پیش میعاد ہوچکاہے'
مشرق وسطی کے بارے میں سلامتی کونسل اجلاس میں اقوام متحدہ میں برطانوی مشن کے سفیرمارک لائل گرانٹ نےرائے شماری میں حصہ نہ لینے کی توضیح کی ہے
برطانیہ سمجھتا ہے اورمشرق وسطی امن عمل میں پیش رفت کی کمی سے شدید مایوسی اور اس تعطل کو قبول نہ کرنے اور اسے برقرار نہ رکھنے کی کوشش میں بھی شریک ہے۔ اسرائیل- فلسطینی تنازعے کا ایک منصفانہ اورپائیدارحل پیش میعاد ہوچکا ہے۔
ہم ایک خودمختار، ملحق اورقابل عمل فلسطینی ریاست کے جو اسرائیل کے پہلو میں امن اورسلامتی کے ساتھ بقاپزیرہو، قیام کےاپنے اس عزم کو حقیقت بنانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گے۔
ہم ایک مدت سے یہ یقین رکھتے ہیں کہ دوریاستی حل کے لئے براہ راست مذاکرات، واضح اور بین الاقوامی طور سے متفقہ حدود کی بنیاد پر ہونا چاہئیں۔ مجھے یاد ہے کہ فروری 2011ء میں، میں نےاسی چیمبر میں آباد کاری کی قراردادکے بارے میں برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے مشترکہ ووٹ کی توضیح کرتے ہوئے ہمارا نقطہ نظر پیش کیا تھا کہ یہ حدود کیا ہونا چاہئیں۔ اس لئےہم مشرق وسطی امن عمل پرسلامتی کونسل کی ایک قرارداد کے خیال کا خیر مقدم کرتے ہیں جو ان حدودکا تعین کرے گی۔
تاہم ایسی قراردادپر اتفاق کے لئے قرارداد کے مسودے پرمشاورت اورمذاکرات اوراس کے وقت کےتعین کے لئے باقاعدہ وقت درکار ہے۔ ہم صدر محمود عباس کو امن میں یقین رکھنے والا اوراس دباؤ کو جو فلسطینی قیادت پر ہے اور پیشرفت میں کمی پرمایوسی کوسمجھنے والا شخص گردانتے ہیں۔ لیکن ہمیں مایوسی ہورہی ہے کہ ایک معمول کے مطابق اورضروری مذاکرات اس موقع پر نہیں ہوسکے۔
برطانیہ اس قرارداد کے بیشتر حصے کی حمایت کرتا ہے۔ اس لئے ہمیں اس پر ووٹ نہ دینے پر بہت دکھ ہے۔ برطانیہ ان حدود کا پابند ہے جو میں نے یہاں 2011ء میں متعین کی تھیں۔ اورجن کا یورپی یونین خارجہ امور کونسل نے جولائی 2014ء میں اعادہ کیا تھا۔ آباد کاری پر، بشمول مشرقی یروشلم والی، ہمارا نقطہ نظرواضح ہے: وہ بین الاقوامی قوانین کے تحت غیرقانونی ہیں، امن کی راہ میں رکاوٹ اوردوریاستی حل کے امکانات کوسنگین طورسے تباہ کرتی ہیں۔ آبادکاری کی تمام سرگرمیوں کو جن میں مشرقی یروشلم بھی شامل ہے، فورا بند کیا جانا چاہئیے۔ ہم تمام فریقین سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ایسے یک طرفہ اقدامات نہ کریں جومذاکرات کے ذریعے امن کی تلاش کو مزید مشکل بنادیں۔
یہ حقیقت کہ مسودہ قرارداد آج منظور نہیں کیا جاسکا، برطانیہ کو شراکت داروں کے ساتھ اس نظرئیے پردوبارہ کام کرنے کے لئے آمدہ کرتی ہے کہ 2015ء میں مشرق وسطی امن عمل پر حدود کے بارے میں ایک قراردادپیش کی جائے۔ ہمیں یقین ہے کہ مزیدوقت اور کوشش سے یہ ممکن ہے کہ پہلی بار ایک ایسی قراردادمنظور ہو سکے جس کی سلامتی کونسل مکمل حمایت کرتی ہو۔