تقریر

بیرونس اینلے نے آزادئی مذہب وعقائد کانفرنس کا افتتاح کیا

انسانی حقوق کی وزیر بیرونس جوائس اینلے نے وزارت خارجہ کے لوکارنو سوئیٹ میں منعقد دو روزہ کانفرنس میں افتتاحی تقریر سے چند اقتباسات

اسے 2016 to 2019 May Conservative government کے تحت شائع کیا گیا تھا
=

آج کے مباحث کا دہرا مرکز ہم سب کے لئے بہت اہم ہے: متشدد انتہا پسندی کی روک تھام اور آزادئی مذہب یاعقیدے کا تحفظ بظاہر یہ دونوں باتیں یکدم متعلق نہیں لگتیں لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ان میں اکثر ایک تعلق ہوتا ہے ۔ میں ابھی اس کی وضاحت کرتی ہوں۔

سیاست میں آنے سے پہلے میں ٹیچرتھی۔ میں نے مشاہدہ کیا کہ بچپن کے ہمارے تجربات ہمارے ذہن میں دنیا کا ایک خاکہ بنادیتے ہیں اورایک طریقہ کارجگہ بنالیتا ہے جس سے ہم دوسروں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہمارے روئیے اسکول پلے گراونڈمیں ایک شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ اسی لئے بچے اگر دوسروں میں اختلاف کا احترام کرنا نہ سیکھیں تو امکان رہتا ہے کہ وہ یہ سمجھنے لگیں کہ ایسے لوگوں سے مختلف برتاو کرنا قابل قبول ہے۔

اسکولوں میں بچوں کے ایک دوسرےکے الٹے پلٹےنام رکھنے سےجو کھیل شروع ہوتا ہے، بعد میں، وہ قطعی عدم برداشت میں تبدیل ہوجاتا ہے جب کچھ افراد کو کچھ ملازمتیں نہیں دی جاتیں یا قانون میں ان سے امتیاز برتا جاتا ہے۔

اگر نوجوان دوسرے مذاہب کے ماننے والوں سے باہر کے لوگوں جیسا سلوک کرنے کے عادی ہوجائیں تو اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ ان لوگوں کے نفرت آمیزپیغامات کا نشانہ بن جائیں جوداعش جیسی انتہا پسند تنظیمیں بھیجتی ہیں۔

اس کا مطلب بلاشبہ یہ نہیں کہ ہرشخص اسی طرح سے بنیاد پرست بناہے، یا انہوں نے اسکول سے ہی یہ سیکھا ہے۔ البتہ مجھےیقین ہے کہ اگر ہم ایسی ثقافت برداشت کرنے لگیں جہاں لوگ یہ سمجھتے ہوں کہ مذہب یا عقیدہ مختلف ہونے کی وجہ سے ان کے ساتھی شہری ان سے کم تر ہیں، تو ہم ایک ایسی زرخیز زمین تیارکردیتے ہیں جس میں انتہا پسندانہ نظرئیے جڑ پکڑنے لگتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ مذہب کی آزادی اتنی اہمیت رکھتی ہے اور اس کا براہ راست تعلق انتہا پسندی کے خلاف جنگ سے ہے۔ اگر ہم دوسروں کو اہمیت دیں ، خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں اوراگر ہم اپنے بچوں کو بھی یہی سکھائیں تو ہم انہیں وہ آلات دے سکیں گے جن سے وہ عدم برداشت کو مسترد کردیں۔ اگرہم کھلے، مساوی اوراجتماعی معاشروں کی بنیاد رکھیں، تو ہم ایسی کمیونٹیز کی تعمیربھی کرلیتے ہیں جو انتہا پسندی کے خلاف مزاحمت کرسکتی ہوں، ایسی کمیونٹیزجہاں ہرشخص مزاحمت کرنے کے لئےمنافرت بھرے نظریات کے خلاف دانشورانہ خودمختاری کا حامل ہو، خواہ وہ مذہبی نظرئیے ہوں یا کوئی اور۔

یہ عزم چیلنج آمیز ہے اور ایسا کہ جو حکومتوں کے مکمل کمٹمنٹ کا متقاضی ہو۔ یہاں برطانیہ میں ہمارے اپنے چیلنجز ہیں اور اسی لئے حکومت میں وزیراعظم سے لے کر وزراء تک سب ہی مکمل طور پراس میں شامل ہیں۔

بلاشبہ ہماری دنیا کے نیٹ ورک میں کوئی بھی ملک تنہا انتہا پسندی سے نہیں نمٹ سکتا ۔ غیر ملکی جنگجو اور دہشت گرد سرحدوں کو نہیں مانتےاورلاتعداد لوگ انٹرنیٹ کے ذریعے بنیاد پرست بنائے جاتے ہیں۔

ہمیں اس عالمی مسئلے کا عالمی حل درکار ہے۔ ہمیں مل کر کا کرنا ہوگا، انفرادی ملکوں کی حیثیت سے، اور اقوام متحدہ اور دولت مشترکہ جیسے اداروں کے ذریعے ۔ معاشرے کے تمام شعبوں کو شامل کرنے کی ضرورت ہے، حکومتیں، شہری معاشرے، مذہبی رہنما، ماہرین علم اور دوسرے۔

اسی لئے آج کی یہ کانفرنس بہت اہم ہے۔ ہم نے متاثر کن مقررین کو یہاں دنیا بھر سے اکھٹا کیا ہے جو اس کی قطعی عملی مثالیں بیان کریں گے کہ وہ مزید کھلے اور مساوی معاشروں کی تعمیر کے لئےکس طرح کام کررہے ہیں۔ ہم نے ان سے کہا ہے کہ وہ مرکزی نکتہ اپنے کام کو بنائیں اورعملی آئیڈیا ہمیں دیں کہ آپ سب جہاں بھی کام کررہے ہوں ان کی نقل کرنے کے بارے میں سوچ سکیں۔

میں جانتی ہوں کہ مذہب یا عقیدے کی آزادی ایک حساس مسئلہ ہو سکتا ہے۔ خاص طورپر ہمارے بڑھتے ہوئے سیکولریورپی معاشرے میں ، ہم فطری طورپراسے ٹھیک کرنے کے لئے بے چین ہیں۔ لہذا کل سہہ پہر کی علاقائی ورکشاپس میں ہمیں موقع ملے گا کہ ہم یہ تبادلہ خیال کرسکیں کہ ان میں سے کچھ آئیڈیازکو مختلف ثقافتی تناظر میں کس طرح اپناسکتے ہیں۔

ان مسائل سے نمٹنے کے لئے فکر انگیز طریقہ کار کی تجاویز کے علاوہ کانفرنس آپ کو ایسے آئیڈیاز بھی پیش کرے گی جو ان ممکنہ شراکت داروں اور نگرانوں کے بارے میں ہونگے جو تجاویز پر عملدرآمد میں آپ کی مدد کرسکیں گے۔ میں چاہتی ہوں کہ یہاں سے ہر شخص پرخیال ، متحرک اور آئیڈیاز سے بھرپور ہوکے جائے ۔ اس میں اپنی مدد کے طور پر مجھے یہ اعلان کرتے ہوئے خوشی ہورہی ہےکہ ہم نے اپنے بہترین آزادئی مذاہب یا عقیدہ ٹول کٹ کوتازہ اور دوبارا شائع کیا ہے یہ آپ کو اپنی نشستوں پر مل گیا ہوگااور ابھی مزید کچھ فراہم کیا جائے گا۔اس میں عمل کے لئے کئی عملی آئیڈیاز دئیے گئے ہیں ۔ اسے لے جائیے اور ازراہ کرم استعمال کیجئیے۔

اختتام پر میں اپنے سکریٹری خارجہ کا یہ پیغام دہراونگی : انسانی حقوق کی آزادی اوراحترام معاشروں کو مزید خوشحال اورمستحکم بناتے ہیں۔

مذہب یا عقیدے کی آزادی ایک کامیاب معاشرے کے لئے بنیادی لازمہ ہے۔ یہ تعصب، امتیاز اورظلم و ستم کے خلاف مزاحمت کو جنم دیتا ہے جو ایک معاشرے کو نہ صرف اپنے مکمل معاشی امکانات کی تکمیل سے روکتے ہیں بلکہ اسے کمزور کرکے انتہا پسندی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔

اسی لئے یہ بہت اہم ہے کہ ہم اب مل کر کام کریں تاکہ مذہب یا عقیدے کی آزادی ، متشدد انتہا پسندی کے خلاف ہماری کوششوں کا مرکز بن جائے۔ میری تمنا ہے کہ آپ کادن تعمیری اور کامیاب رہے اور میں شام کے استقبالیے میں ان مسائل پرمزید بات چیت کی منتظر ہوں.

Updates to this page

شائع کردہ 19 اکتوبر 2016