تقریر

بیرونس وارثی کی سلطان قابوس مسجد میں مذہبی رواداری پرتقریر

بیرونس سعیدہ وارثی نے مسقط میں مذہبی رواداری پرتقریر کی ہے اوردوسرے ملکوں کے لئے عمان کی مثال کو پیش کیا ہے.

اسے 2010 to 2015 Conservative and Liberal Democrat coalition government کے تحت شائع کیا گیا تھا
Baroness Warsi

وزارت خارجہ کی وزیر سعیدہ وارثی نے اپنی تقریر میں کہا ہے:

میری یہاں آمدمیرے لئے حقیقی اعزاز ہے۔ مجھے برطانیہ کے قدیم ترین گرجا گھروں اور دنیا کی عظیم ترین یونی ورسٹیوں میں تقریر کرنے کا موقع ملا ہے۔

لیکن ان کامقابلہ یہاں مسقط کی اس عظیم الشان مسجد سےنہیں ہوسکتا کیونکہ یہ عمیق روحانیت اوربے پناہ خوبصورتی کا مجموعہ ہے۔

میرے لئے یہ ایک گھر سے دوردوسرے گھر کی طرح ہے،اس لئے نہیں کہ یہ میرے محبوب عقیدے، اسلام کی عبادت گاہ ہے بلکہ اسلئے بھی کہ اس کی تعمیر میں ایک برطانوی کمپنی کا بھی حصہ ہے۔

اس لئے یہ مذہبی رواداری کی بات کرنے کے لئے بہترین مقام ہے۔ کیونکہ عمان سلطان عالی کی حکمت آمیزقیادت میں اس بقائے باہمی کی علامت ہے جس کے لئے ہم سب جدوجہد کررہے ہیں۔ میں اپنی تقریرمیں آگے چل کراس کی چند مثالیں پیش کرونگی جن سے ہم سب کچھ سیکھ سکتے ہیں۔

میں برطانوی حکومت میں کام کرتی ہوں جہاں میں سب سے پہلی وزیرائے عقائد ہوں۔ برطانوی کابینہ کی وزیرکے عہدے پر فائز ہونے والی میں پہلی مسلم وزیر ہوں۔ جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا اوراقوام متحدہ کی ذمے داریوں کے ساتھ وطن میں عقائد اور بیرون ملک مذہبی آزادیوں کے شعبے میری ذمے داری ہیں۔

دونوں کیسوں میں میں نے مذہبی آزادی کو اپنی ذاتی ترجیح بنا لیا ہے: لوگوں کو ان کے عقیدے پر قائم رہنے، اپنے عقیدے کا اظہار کرنے اوراسے تبدیل کرنے کے حق کا فروغ اورتحفظ ۔

میں سمجھتی ہوں یہ نہ صرف ذاتی شناخت کا لازمی حصہ ہے بلکہ مزیدمنصفانہ،محفوظ تر اور مزید ترقی پسند کمیونٹیز کو فروغ دیتا ہے۔

میرا اپنا عقیدہ اسلام میری پرورش کے اس رنگ کا نتیجہ ہے جو اس ملک نے مجھے دیا جہاں میں نے جنم لیا تھا، بحیثیت وکیل،مہم ساز اورسیاستداں میرے تجربے کا اورایک بیٹی، ایک بیوی اورایک ماں کی صورت میں میرے ذاتی تجربے کا نچوڑ ہے۔

میرے ملک میں کسی سیاستداں کے لئے عقیدے خاص طور پر اس کےاپنے عقیدےکے بارے میں ایمانداری سےاورکھل کر بات کرنا فیشن میں نہیں ہے،جیسا کہ ٹونی بلئیر کے مشیر نے یہ مشہور فقرہ کہا تھا،’‘ہم خدا خدا نہیں کرتے۔ ‘’ لیکن 2010ء میں جب ہماری حکومت آئی تو میں نے اپنی سب سے پہلی بڑی تقریر میں کہا تھا’ ہم خدا خدا کریں گے’۔

جب میں نے یہ کہا تو اس کامطلب یہ تھا کہ جس طرح عقیدے کوطاق میں رکھ دیا گیا اوراس کی اہمیت کم کی گئی وہ غلط تھااوراس کو بدلناہی ہوگا۔ عقیدہ ہمارے عوامی مباحث کا اہم جزوہونا چاہئیے اورعقائد کی حامل فلاحی تنظیموں،رضاکار اداروں اورافرادکی، جواپنے معاشرے کی خدمت اپنے عقیدے کے تحت کرتے ہیں، معاونت کی جانی چاہئیے۔

میں نے کہا کہ ہم یورپ میں مسلم دشمن جذبات کی بڑھتی ہوئی لہر جیسے سخت مسائل کا ڈٹ کرسامنا کریں گے۔ برطانیہ میں، میں نے اسلامو فوبیا کا تعصب بڑھتا ہوا محسوس کیا یہانتک کہ اچھے خاصے مہذب ماحول میں بھی مسلمانوں کے خلاف جذبات قابل قبول نظر آنے لگے۔

میں نے سوچا کہ اب حکومت کو کچھ کرنا ہوگا۔ مجھے خوشی ہے کہ اس حکومت نے ایسا ہی کیا ہے اور اس میں اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کے ساتھ شراکت میں بھی کام کیا ہے۔

میرا کہنا تھا کہ ہمیں نئے عقائد کی کمیونٹیز تک پہنچنا اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے پرانے رشتوں کو بحال کرنا چاہئیے۔

2012ء میں، مجھے برطانیہ کا سب سے بڑا وزارتی وفد لے کر ویٹیکن جانے کا اعزازملا جہاں میں نے کہا کہ یورپ کو اپنی مسیحی شناخت میں مستحکم ہونا چاہئیے۔

کیوں؟

کیونکہ اقلیتوں کو ان ہی مقامات پرخوش آمدید کہا اور قبول کیا جاتا ہے جہاں خودانہیں اپنی شناخت کے بارے میں یقین ہواورہمارے براعظم میں بڑھتا ہواشدت پسندانہ سیکولرازم اقلیتوں کو خوش آمدید کہنے کی بجائے انہیں جھٹک رہا ہے۔

میں نے کہا تھا کہ ہم مذہبی آزادی کے مضبوط محافظ ہونے کی ذمے داری سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ اور جب میں نے گزشتہ برس واشنگٹن میں جارج ٹاؤن یونی ورسٹی میں تقریر کی تو مذہبی اذیت رسانی،خاص طور پر مشرق وسطی کے کچھ حصوں میں مسیحی اقلیتوں پراس کے خطرے سے خبردار کیاتو وہ بھی درست تھا۔ یہ ایک المناک عالمی بحران ہے اورعالمی ردعمل کا متقاضی ہے۔

یہ مشکل اور پیچیدہ موضوعات ہیں جن سے جذباتی اورجوشیلا ردعمل بھڑک سکتا ہے۔ لیکن میں سمجھتی ہوں کہ میرا طرز فکرامید افزا اورخوش امیدی کا حامل ہے۔

میں اسے بھی اپنی ذمے داری سمجھتی ہوں کہ اپنی سیاسی استحقاقی پوزیشن کو ناانصافی کو سامنے لانے اور رواداری کی حوصلہ افزائی کرنے کے لئے استعمال کروں۔

میں مسلم ہونے پرنازاں ہوں۔ میں ایک محب وطن برطانوی ہوں جو اس وقت ایک ایسی مسجد میں کھڑی ہے جس کا کچھ حصہ برطانویوں نے تعمیر کیا ہے۔اس کے باوجود کہ مجھ سے اکثر ایسے سوالات کئے جاتے ہیں جن کا کوئی جواب نہیں ہوتا کہ میں پہلے مسلم ہوں یا پہلے برطانوی- کیونکہ مجھے اپنی شناخت کے ان پہلوؤں میں کوئی تنازعہ نظر نہیں آتا۔ میری حب الوطنی اورمیری اپنے مذہب سے وفاداری دونوں مستحکم اور مثبت قوتیں ہیں جو مجھے متحرک کرتی ہیں۔

لیکن خواتین اورحضرات آج میں اپنی شناخت کے ایسے پہلو پر بات کرنا چاہتی ہوں جسے میں نےعوامی سطح پربہت کم سامنے لایا ہے۔ میری سنی اور شیعہ پرورش۔

میری مذہبی تعلیم میں تنوع اورمذہب کے بارے میں متجسسانہ انداز کی ہمارے گھر میں حوصلہ افزائی کی جاتی تھی۔ بچپن میں عاشورہ بھی میری زندگی کا ویسا ہی ایک حصہ تھا جیسے دیوبندی مسجد میں باقاعدگی سے نماز۔

ماضی میں، میری دلیل رہی ہے کہ مذہب یا عقیدہ آج کے تنازعات میں فالٹ لائن کا کاکام کرتا ہے۔ لیکن یہ دراڑیں عقیدے کے اندر بھی اتنی ہی نمایاں اور بعض اوقات عمیق ترہیں جتنی کہ مختلف عقائد کے درمیان۔ ان فرقہ وارانہ مناقشات کی روک تھام کبھی کبھار ہی کی جاتی ہے لیکن میرے خیال میں یہ مناقشات، مذہب یا عقائد اورہماری دنیا دونوں کے لئے بہت بڑا خطرہ ہیں۔

آج میں مطلق ذاتی تناظر میں بات کرنا چاہتی ہوں، اپنے ذاتی عقیدے اسلام کے تعلق سے اورمیرا کہنا یہ ہے کہ مخاصمانہ اورپر تشدد فرقہ پرستی نہ صرف غیراسلامی ہے بلکہ یہ اسلام دشمن ہے۔

ہمارے مذہب میں اس کی کوئی جگہ نہیں بلکہ میں جانتی ہوں کہ بنیادی اصولوں میں اس کی مذمت کی گئی ہے۔ بدقسمتی سے یہ کشیدگی، انتشار اور دہشت گردی کا سبب ہے۔

ہماری آج کی دنیا میں اس کی کوئی جگہ نہیں ہونا چاہئیےاورہم سب کا فرض ہے کہ ہم اس کی مذمت کریں اوراس سے نمٹیں۔ بلاشبہ فرقے، ذاتیں،گروپ ، زندگی کی طرح مذاہب میں بھی کوئی نئی چیزنہیں۔ جتھہ بندی اوررقابتیں انسانی فطرت کا حصہ ہیں ۔ مجھے تو یہ معلوم ہونا ہی چاہئیے کیونکہ میں سیاست سے منسلک ہوں۔

تاہم جہاں لوگوں نے ہمیشہ خود کو کئی خصوصیتوں سے پہچنوایا ہے میں خود کوایک برطانوی، ورکنگ کلاس، ایک مسلمان اور ایک ماں کی حیثیت سے شناخت کرتی ہوں لیکن آج بدقسمتی سے لوگوں کا فرقہ ان کی شناخت پرغالب آرہا ہے۔ مذہبی لوگ جہاں خود کو فرقے کے حوالے سے شناخت کروارہےہیں وہیں دوسروں کے مقابلے میں خود کو اعلی تربھی قرار دے رہے ہیں۔

فرقوں کے درمیان ، ایک ہی خدا کو ماننے والے اورایک ہی کتاب الہی کے حامل لوگوں کے درمیان جونفرت ہوسکتی ہے وہ مجھے پریشان اورغمزدہ کردیتی ہے۔

اور برطانیہ میں بھی ہم اس سے محفوظ نہیں۔ کچھ لوگوں کےتقسیم اور دوسروں کے عقیدے کو کمتر قرار دینے کی تبلیغ اس کی وجہ ہے۔ اکثر سب سے زیادہ مذمت آپ کے اپنے ہم عقیدہ بہن یا بھائی کے لئے مخصوص ہوتی ہے۔

یہ حقیقت کہ ان کے عقیدے کی نوعیت آپ کے عقیدے سے نہیں ملتی اب ایک ناگزیر،صحتمندانہ اختلاف رائے نہیں مانی جاتی بلکہ اسے ایک ناقابل شکست اختلاف سمجھا جاتا ہے،یہاں تک کہ فرقہ وارانہ اختلاف کو مذہبی دہشت گردی کا جواز بنا لیا جاتا ہے۔

دنیا بھرمیں اس قسم کا تشدد ہمیشہ سے زیادہ بڑھ گیا ہے۔ عراق میں اقوام متحدہ کے مطابق فرقہ وارانہ تصادم کی انتہا پر 50 ہزارعراقی دہشت گردی کے نتیجے میں مارے گئے۔ صرف پچھلے سال ہی 8 ہزارعراقی ان واقعات میں ہلاک ہوئے۔

پاکستان میں گزشتہ دوسال میں فرقہ وارانہ تشدد میں ایک ہزار سے زائد لوگ ہلاک ہوئے ہیں۔ فرقہ وارانہ تشدد لبنان میں جاری ہے۔ یہ صومالیہ میں الشباب اور اس کے مخالفین کے درمیان اوریمن میں شیعہ حوثی مسلمانوں کو ہدف بناکےہو رہا ہے۔ یہ میں مانتی ہوں کہ یہ تما م ہلاکتیں صرف فرقہ واریت کا نتیجہ نہیں۔ چند حملے دہشت گردوں نے محض کسی کمیونٹی یا ملک کو غیر مستحکم کرنے کے لئے بھی کئے تھے۔

تاہم یہ حقیقت، کہ دہشت گرد فرقہ واریت کو اپنی کارروائیوں کی بنیاد بناتے ہیں،یہ ظاہرکرتی ہے کہ یہ مسئلہ کتنا شدید اور خطرناک ہوگیا ہے۔ یہ ایک ایسے طرزعمل کی عکاسی کرتا ہے جو ایک ایسی دنیا کے تصور کو تقویت دیتا ہے کہ جو ریاست ہمارے عقیدے کو مانے گی صرف اسے ہی تسلیم کیا جائے گا۔ یہ تکفیری نظریہ جو اسلام کی ہمیشہ سے موجود اختلاف کی روایت کو مسترد کرتا ہے میرے لئے شدید تشویش کا باعث ہے کیونکہ اس کی وجہ سے مذہبی لوگ اپنے عقیدے سےزیادہ دوسرے کے عقیدے کے بارے میں پریشان نظر آتے ہیں۔

میں خود اس تنقید پرستی کا نشانہ بنتی رہی ہوں، چند سال پہلے مجھے برطانیہ کی سڑکوں پر ایک گروہ نے نشانہ بنایا جو مجھ پر ‘ایک صحیح مسلمان’نہ ہونے کا الزام لگا رہا تھا۔

انہوں نے میرے سیاست میں ملوث ہونے کو قبول نہیں کیا اورچہرے کو ڈھانپے بغیر بر سرعام آنے کو بھی اچھا نہیں سمجھا۔

انہوں نے میرے عقیدے کو چند ‘ممانعتی’ اقدامات کی فہرست تک محدود کردیا جو منفی تھے اوراپنے مذہب کو صرف ان پہلوؤں تک محدود کردیا جن کے وہ مخالف ہیں بجائے اس کے کہ مذہب کا مطلب کیا ہے گویا اسلام کی اصل یعنی روحانیت اوررحمت سے اسے محروم کردیا۔

میں سمجھتی ہوں کہ یہ اندازنظراسلام کی تعلیمات سے مطابقت نہیں رکھتا اورمذہبی افراد کو انتہا پسندوں کا نشانہ بنا دیتاہے جو اللہ کے نام پر تشدد کرتے ہیں۔

مجھے ہمیشہ یہ سکھایا گیا ہے کہ عقیدہ اسی وقت سب سے زیادہ مستحکم ہوتا ہے جب اللہ تک خود پہنچا جائے۔ اور جیسا کہ عمان کی مذہبی رواداری کی ویب سائٹ پر بالکل صحیح کہا گیا ہے:’’ ہر شخص کو اللہ کے سامنے خود جواب دینا ہے۔’’

مزید معلومات

بیرونس سعیدہ وارثی ٹوئٹرپر @SayeedaWarsi

وزارت خارجہ ٹوئٹرپر @وزارت خارجہ

وزارت خارجہ فیس بک اور گوگل+

وزارت خارجہ اردوٹوئٹریوکےاردو

وزارت خارجہ فیس بک

اردوویب سائٹ

Media enquiries

For journalists

ای میل [email protected]

Updates to this page

شائع کردہ 18 فروری 2014