بنگلادیش میں یوم دولت مشترکہ
یوم دولت مشترکہ منانےکے لئے برطانوی ہائی کمشنربرائےبنگلادیش نے10مارچ کودولت مشترکہ سوسائٹی سیمینار میں تقریرکی.اس کے اقتباساتپیش ہیں۔
السلام وعلیکم اورمجھےیوم دولت مشترکہ 2014ء میں مدعو کرنے کاشکریہ.
میں بنگلادیش کی دولت مشترکہ سوسائٹی کو مبارکباد دیتا ہوں کہ انہوں نے دولت مشترکہ کی روح اور اقدارکو سربلند کرنے کے لئے انتھک اورپرخلوص کوششیں کی ہیں۔
اس سوسائٹی کی کوششوں کے بغیر اس شاندار تنظیم کافروغ بہت مشکل ہوتا۔
اس سال دولت مشترکہ کھیل 23 جولائی تا 3 اگست گلاسگومیں ہورہے ہیں۔ برطانیہ دولت مشترکہ کے خاندان کے اراکین کو خوش آمدید کہنے کا منتظر ہےجن میں بنگلادیش شامل ہے، ہمیں ایک دوسرے سے جوڑنے کا یہ ایک اور موقع ہوگا۔
اس سال دولت مشترکہ کاموضوع ایک ٹیم کی طرح کام کرنا ہے۔ کھیل کے اہداف کے لئے ٹیم ورک تو لازمی ہوتا ہے۔ لیکن صرف کھیل ہی ایساشعبہ نہیں جہاں ٹیم ورک کی ضرورت ہو۔
دولت مشترکہ ایک ٹیم ہے۔ 53 خودمختار رکن ریاستوں کی۔ یہ ٹیم خالصتا رضاکار کلب ہے جو مشترکہ تاریخ، ہمارے عوام کے درمیان گہرےاورمتنوع بندھنوں، کھلے، شفاف معاشروں کی اہمیت کے بارے میں ہمارے فطری احساسات، جمہوریت، قانون کی حکمرانی اورانسانی حقوق کے ذریعے جڑا ہواہے۔
ہر رکن ریاست میں عوام اور حکومت مل کر ایک ٹیم بناتے ہیں جو ملک تشکیل دیتی ہے۔ اس وجہ سے میں آج اپنا موضوع ان اقداراوراس اعتماد پر مرکوزرکھونگا جوہمیں ایک ٹیم کی شکل دیتے ہیں۔
ابھی ہمیں ملکہ عالیہ کا یوم دولت مشترکہ پر پیغام سننے کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔ جیسا کہ ملکہ عالیہ نے کہا:
'’یہ احساس ہمارے انداز نظر پر ہمیشہ حاوی رہا ہے کہ ہم ایک دوسرے سے وابستہ ہیں اورٹیم ورک کے ذریعے ہم وہ بہت کچھ حاصل کرسکتے ہیں جو اکیلے نہیں کرپاتے۔ ہم سب کے لئے یہ اب دولت مشترکہ منشورمیں سمودیا گیا ہے جس میں ان اقداراوراصولوں کا تعین کیا گیا ہے جو ہماری رہنمااورمحرک ہیں۔ ‘’
گزشتہ نومبردولت مشترکہ سربراہی کانفرنس (چوگم) میں جوکولمبو میں ہوئ یسربراہان حکومت، جن میں عزت مآب وزیر اعظم شیخ حسینہ موجود تھیں،ایک ٹیم کی طرح اکھٹا ہوئے اورانہوں نے منشور میں متعینہ، احترام، تحفظ اوربنیادی اقدار کے فروغ سے اپنی وابستگی کا اعادہ کیا۔
یہ منشوران تمام اقدار کا وضاحت سے احاطہ کرتا ہے جو تمام اراکین کامحور ہونا چاہئیے۔ ان میں :
ہم شہری، سیاسی،سماجی اور ثقافتی حقوق کے تحفظ اور فروغ کے لئے مساوات اور احترام کا عزم رکھتے ہیں،ان میں بلاکسی تعصب کے ہرایک کے لئے ترقی کا حق شامل ہے۔
ہم تمام انسانوں کے وقار کے احترام کے لئےرواداری،احترام، افہام و تفہیم، اعتدال اورمذہبی آزادی کی ضرورت پر زور دیتے ہیں ۔ بنگلادیش دولت مشترکہ کا رکن ہے اور اس نے منشور پر دستخط کئے ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ بنگلا دیش خود کے ایک ایک روادار معاشرہ ہونے پر فخرمحسوس کرتا ہے۔ خوشی ہے کہ وہ اپنے تنوع اور احترام پر نازاں ہے اور خوشی ہے اس پر کہ بنگلادیش دولت مشترکہ کے وژن میں شریک ہے۔
اس خوبصورت ملک میں 13 سال وقفوں وقفوں سے رہنے کے تجربے سے میں اس کے مستقبل کے بارے میں خوش امیدی رکھتا ہوں۔ مستقبل کے رہنمامجھے مستقبل کے اپنے وژن کے بارے میں بتاتے ہیں کہ کل کے بنگلا دیش کے بارے میں ان کا تصور کیاہے۔
لہذا میرا آج کا سوال یہ ہے کہ کیا کوئی ایسے مسائل ہیں جہاں ہمیں زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنے مشترکہ ہدف تک پہنچ سکیں۔ میں موت کی سزا کے بارے میں کہہ سکتا ہوں جس کی برطانیہ ہرحال میں مخالفت کرتا ہے۔ میں جبری شادی کی بات کرسکتا ہوں جو اب بھی یہاں عام ہے۔ میں عورتوں کی اس بڑی تعداد کے بارے میں بات کر سکتا ہوں جو اب بھی جنسی تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔
لیکن آج میں صرف تین امور پر بات کرونگا۔ وہ تین امور جن کے لئے تمام شہریوں اورحکومت کو زیادہ کوشش کی ضرورت ہے تاکہ منشور میں متعین اقدار کا احترام ہوسکے۔
سب سے پہلاملزموں کے حقوق اوران کے لئے منصفانہ مقدمے اورانسانی سلوک کا حق۔
مجھے یقین ہے کہ میری طرح اس کمرے میں موجود ہر شخص نے بنگلا دیش میں ماورائے عدالت ہلاکتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے بارے میں پڑھا ہوگا۔ اگر مقامی انسانی حقوق تنظیموں اورمیڈیا میں دی گئی اس تعداد کودرست مانا جائے تو یہ واقعی چونکا دینے والی تعداد ہے اور تشویش کا سبب بھی۔ مجھے حکومتی اراکین نے ذاتی طور سے یقین دلایاہے کہ انکے بارے میں تحقیقات کی جائیں گی۔ تاہم میں حکومت پرزور دونگا کہ یہ تحقیقات جلد اور شفاف طریقے سے کی جائیں۔اورمستقبل میں قانونی ضابطوں کی ایسی خلاف ورزیوں کونہ دہرایا جائے۔
دوسرے میں ہم جنس پرست عورتوں اورمردوں کی طرف توجہ دلانا چاہونگا۔
قانون کی دفعہ 377 ہم جنس پرستی کوجرم قراردیتی ہے۔ یہ دفعہ برطانوی نوآبادکاری کے زمانے سے موجود ہےآج کی دنیا میں یہ ایک تاریخی خطا ہے۔ لیکن جب بھی میں اس کمیونٹی کے حقوق کے بارے میں حکومت کے ساتھ رازدارانہ طور پر بات کرتا ہوں مجھے بتایا جاتا ہے کہ بنگلا دیش ابھی اس مسئلے پر توجہ دینے کے لئے تیار نہیں ہے۔
میں اس سے اتفاق نہیں کرتا۔
دنیا بھرمیں انسانی حقوق کے باب میں پیش رفت کی جدوجہد اوراس کی کامیابی اکثرمشکل ہوتی ہے۔ جب برطانیہ میں ہم جنس پرستی کوقانونی قراردیا گیا تو اسے وسیع طورپر قبول نہیں کیا گیا تھا۔اوراسی طرح خواتین کو ووٹ دینے کے حق کے بارے میں بھی پہلے ہوچکا تھا۔عوام کی طرف سے زبردست مخالفت ہوئی تھی۔ لیکن ہمارے قانون سازوں اوررہنماؤں نے تسلیم کیاکہ یہ ناانصافی ہے ۔ پارلیمنٹ ڈٹی رہی اورعوامی مخالفت کے باوجود ہم جنس پرستی کو قانونی قراردینے کابل منظور ہوگیا۔
تیسرا مذہبی اولیتوں کے حقوق ہیں.
مجھے یقین ہے کہ مذہبی اقلیتوں پر تشددسے ہم سب کو ہی صدمہ ہوا ہوگا۔ میں وزیراعظم کی اس یقین دہانی کا خیر مقدم کرتا ہوں کہ حکومت مذہبی اوردوسری اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنائے گی۔ حال میں ہونے والے حملے تشویشناک اور بلاوجہ تھے۔
میں تمام شہریوں سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ معاشرے کے ان اور دیگر کمزور طبقوں پر تشدد سے گریز کریں۔ دولت مشترکہ کی اقدار کامحض راگ الاپنا کافی نہیں ان پرعملدرآمد بھی ضروری ہے۔ نومبر کی سربراہی کانفرنس سے پہلے میرے سکریٹری خارجہ ولیم ہیگ نے کہا تھا:
'’ہم سب کو اورمیں، اس میں برطانیہ کو شامل کرونگا، خود پردیانتداری سے غورکرنا چاہئیے کہ ہم بطور قوم منشور میں متعینہ اقدار کے باب میں کہاں ٹھیک کام کررہےہیں اورکہاں بہتری پیدا کرسکتے ہیں۔اور اس سےبھی اہم یہ کہ ہمیں ان شعبوں پر کام کرنا چاہئیے جہاں ہم پیچھے رہ گئے ہیں۔’’
میں بنگلادیشی حکومت اورعوام پراس کے لئے زور دونگا جیسا کہ ہم برطانیہ میں کوشش کرتے ہیں کہ لاپرواہ نہ بنیں اور سر کوریت میں نہ چھپائیں۔ اس کے بجائے انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر مستقل اور مسلسل توجہ دیں اور اس کی روک تھام کریں۔
مجھے امیدہے کہ برطانیہ کے عوام اور اس کی حکومت کی طرح بنگلا دیشی حکومت اورعوام دولت مشترکہ ٹیم کے اصولوں اور اقدار کی حمایت اور فروغ کے لئے سرگرم اورموثرقدم کی مسلسل اورزیادہ کوشش کریں گے.