ابھرتے ہوئے ورلڈ آرڈرمیں بھارت سے توقعات
بھارت میں برطانوی ہائی کمشنر سرجیمز بیون (کے سی ایم جی) کی نیشنل ڈیفنس کالج میں جمعرات 18 ستمبر2014ء کی تقریر سے چند اہم اقتباسات.
آج میں مستقبل کےبارےمیں کچھ کہناچاہتاہوں۔ لیکن میںن ابتدا ماضی سے کرونگا۔ یہ سال جنگ عظیم اول کی سو سالہ یاد کاسال ہے لہذا پہلے تو میں ان تمام بھارتی سپاہیوں کوخراج تحسین پیش کرونگا جنہوں نے اس جنگ میں داد شجاعت دی۔ پہلی جنگ عظیم میں 10لاکھ بھارتیوں نے حصہ لیااور 70 ہزار سے زائد بھارتی فوجی ہلاک ہوئے۔ ہم اس سال ان کی یاد میں کئی اہم تقریبات منعقد کریں گے.
بھارتی آرمی نے اس جنگ میں ایک اہم کردارادا کیا۔انہوں نے جنگ کے ہرمیدان میں حصہ لیا۔انہوں نے مغربی یورپ کی کئی مشہور جنگوں مثلایائپرس (بلجئیم) اور سوم(فرانس)کی جنگیں۔اس نے بحیرہ روم اورگیلی پولی کی جنگ میں بہادری کے جوہر دکھائے۔ مشرق وسطی میں جو اس وقت میسو پوٹیمیا تھا ( اب عراق ہے) فلسطین اور سوئز میں ۔ وہ مشرقی افریقہ میں لڑے.
بھارتی بحریہ نے بھی جنگ میں حصہ لیااورآرمی فلائنگ کورمیں بھی بھارتی تھے۔ بھارتی فوجی بڑے امتیاز کے ساتھ لڑے۔ متعدد کو شجاعت اورمہمات سر کرنے پرفوجی اعزازات ملے جن میں سب سے بڑا اعزاز وکٹوریہ کراس شامل ہے۔ اس سال بھارت میں سوسالہ یاد کے سلسلے میں کئی تقاریب ہونگی اور آخر میں میں اپنی رہائش گاہ پرایک بڑی تقریب کا انعقاد کرونگا جس میں تمام قوموں کے ممتاز افراد،ماضی اورحال کے فوجی نمائندوں اورجنگ عظیم اول میں لڑنے والے فوجیوں کے خاندان کے افراد کو مدعوکیاجائیگا۔
ہم چھ وکٹوریہ کراس حاصل کرنے والے بھارتی فوجیوں کے آبائی شہروں یادیہاتوں میں یادگاری پلیٹ نصب کریں گے۔ہم اس جنگ کے بارے میں کتاب شائع کریں گے اورفرانس اور بلجئیم کے جنگی میدان کےنقشے کے ساتھ ایک رہنما کتاب بھی شائع کی جائے گی تاکہ وہ بھارتی خاندان جو اپنے دادایانانا کے جنگی مقام کا دورہ کرنا چاہیں تو وہاں جا سکیں۔
کس قسم کا ورلڈ آرڈر؟
آئیے اب ماضی سے مستقبل کی طرف چلتے ہیں۔ میں آج پیشین گوئی کی کوشش کرونگا۔ جو بھی یہ کرنا چاہے اسے انکسار سے کام لیناچاہئیے۔ تاریخ ایسے لوگوں سے بھری پڑی ہے جنہوں نے پیشین گوئیاں کیں اوروہ بہت غلط تھیں۔
1876ء میں امریکی ٹیلیگراف کمپنی ویسٹرن یونین نے ایک داخلی میمومیں لکھاتھا:
اس’ٹیلیفون’ میں اتنی خرابیاں ہیں کہ اسے ایک سنجیدہ مواصلاتی ذریعہ سمجھنا صحیح نہیں۔
1895ء میں برطانیہ کے ممتازسائنسداں لارڈ کیلون نے رائل سوسائٹی کو بتایاکہ:
ہواسے بھاری فلائنگ مشین ناممکن ہے
1927ء میں جب تمام فلمیں خاموش ہواکرتی تھیں اگرچہ آواز شامل کرنے کی ٹیکنالوجی وجود میں آچکی تھی امریکی فلم کمپنی وارنر برادرز کے ہیل وارنر نے کہا تھا:
اداکاروں کی آوازیں کون کم بخت سننا چاہتا ہے؟
1949ء میں امریکی میگزین پاپولر میکانکس نے بڑے اعتماد سے اپنے قارئین کو بتایا:
مستقبل میں کمپیوٹرز کا وزن ڈیڑھ ٹن سے زیادہ نہیں ہوگا۔
اور 1977ء میں امریکی کمپیوٹر کمپنی ڈیجیٹل ایکوئپمنٹ کمپنی نے کہا:
کوئی ایسی وجہ نظر نہیں آتی کہ لوگ اپنے گھروں میں کمپیوٹررکھیں۔
2006ء میں میں نے ایک سال ہارورڈیونیورسٹی میں گزارا۔ ماضی میں لوگوں کی پیشین گوئیاں غلط ہونے سے متاثرنہ ہوتے ہوئےمیں نے ‘ دنیا 2020ء میں ‘ کے عنوان سے ایک مقالہ لکھا۔اب ہم اس دنیا سے صرف چھ سال دور ہیں۔ تو یہ تقریر تیار کرتے ہوئے میں نے اس مقالے پر نظر ڈالی۔ میں نے سوچا کہ آپ کو بتاؤں کہ میں نے جو اس وقت لکھا اس میں کیا درست نکلا اور کیا غلط ۔
کچھ باتیں درست نکلیں۔ میں نے 2006ء میں پیشین گوئی کی تھی کہ:
امریکا واحد غالب قوت رہے گا۔اور وہ رہا ہے۔امریکاواحد عالمی طاقت ہےجو دنیابھر میں اپنی قوت کامظاہرہ کرنا چاہتا ہے اور کررہا ہے۔امریکا کی نرم طاقت بھی بہت بڑی ہے۔
چین اور بھارت عظیم قوتوں کی حیثیت سے ابھریں گی اورایشیا کی طاقت نسبتا عروج پر ہوگی اور مغرب کی زوال پر۔ یہ ہورہا ہے۔
بہت سے تنازعات ملکوں کے درمیان نہیں بلکہ ان کے اپنے اندر ہونگے، یا دہشت گردوں اور ریاستوں کے درمیان ہونگے۔ اوربشمول اس خطےکے ایسا ہی ہورہا ہے ۔
سب سے بڑا خطرہ اسلامی دہشت گردوں اور جوہری ہتھیاروں سے ہوگا۔اسلامی خطرہ گزشتہ چند سال میں واقعی بڑھ گیاہے۔
شکر ہے کہ جوہری ہتھیار استعمال نہیں ہوئے۔ لیکن اس کا خطرہ برقرار ہے۔ سب سے سنگین خطرہ یہ ہےکہ یہ ہتھیار یا وسیع تباہی پھیلانے والے ہتھیار دہشت گردوں کے ہاتھ نہ لگ جائیں۔
لیکن مجھے یہ اعتراف بھی کرنا ہے کہ آٹھ سال پہلے کی گئی میری چند پیشین گوئیاں غلط بھی نکلیں:
توانائی کا تحفظ: میرا خیال تھا کہ 2020ء میں دنیا کازیادہ انحصار تیل اورگیس پر ہوگا جومشرق وسطی سے حاصل کئے جائیں گے جس کے تزویری نتائج بھی سمجھ میں آنے والے ہیں۔ لیکن لگتا ہے کہ یہ بات غلط نکلے گی۔ مغرب دوسرے ذرائع اپنے ہی علاقے میں تلاش کررہاہے جو چٹانوں میں شگاف ڈال کے بھی کیا جارہا ہے اس سے مشرق وسطی کے ذرائع پرعالمی انحصارکم ہوگا۔ اورجب قابل تجدید توانائی کی قیمت کم ہوگی اورماحولیاتی تبدیلی کے اثرات بڑھیں گے تو ہائیڈرو کاربنز پر انحصار کم کرنے لئے عالمی کوششیں ہونگی۔اس سے روایتی تزویری تخمینہ بہت تبدیل ہوجائیگا۔
یورپ:میں یہ پیش بینی کرنے میں ناکام رہا کہ یورپ پھر بحران کی زد میں آجائے گا ۔ یوکرین کے واقعات ہمیں بتاتے ہیں کہ دنیا میں کوئی بھی خطہ محفوظ نہیں۔
گلوبلائزیشن: 2006ء میں میں یہ سمجھنے میں ناکام رہا کہ2008ء میں مارکیٹ کریش ہوگی جس سے دنیا بھر میں معیشتوں کو بہت نقصان ہوگا۔اس میں برطانیہ بھی شامل ہوگا۔ اگرچہ مجھے یہ کہتے ہوئے خوشی ہے کہ برطانیہ کی معیشت مستحکم نمو کی طرف واپس آرہی ہے اور جی 8 ملکوں میں برطانوی معیشت سب سے زیادہ تیزرفتاری سے ترقی کررہی ہے۔
ایک اور بات جومیرے خیال میں میں دیکھنے میں ناکام رہا جو شاید آپ نہ مانیں اور وہ یہ ہےکہ: ہر بات کے باوجود آج کی دنیاــ مجموعی طور پرــ کئی سال پہلے کے مقابلے میں رہنے کے لئے بہتر جگہ ہے۔
گزشتہ دو دہائی میں اربوں لوگوں کو غربت سے آزاد کرایا جاچکا ہے۔ حیات طویل ہوگئی ہے۔ دنیا میں کثیرلوگ اب اپنے والدین کی نسبت زندگی کے باب میں کئی اختیارات رکھتے ہیں۔ اب زیادہ آزادی، کم مطلق العنان ریاستیں، اورزیادہ جمہوریتیں ہیں۔ عورتیں اب زیادہ بااختیارہوگئی ہیں۔ انٹرنیٹ نے دنیابھرکی معلومات کولوگوں کی مٹھی میں سمودیاہے۔
اس لئے پیشین گوئی کرنےکی کوشش کرنےوالے لوگوں کو میں بہترین مشورہ یہ دونگا کہ : پیشین گوئی مت کیجئیے۔ اور اگرآپ مستقبل کے بارے میں پیشین گوئی کرنا ہی چاہتے ہیں تومحفوظ ترین طریقہ یہ کہناہے کہ دنیا غیرمستحکم اورناقابل پیشین گوئی ہے۔ اور یہ کہ آنے والے برسوں میں دنیامیں آرڈرزیادہ کی بجائے کم ہی ہوگا۔
کس قسم کابھارت؟
اگر آئندہ چندبرس میں ورلڈ آرڈر کمزور ہوا جو کہ بری خبر ہے تو مجھے یقین ہے کہ بھارت مضبوط تر ہوگا اور یہ بہت اچھی خبر ہے۔
اور اس کی دو وجوہ ہیں۔
پہلی، بھارت کے پاس قوتوں کا ایک آمیزہ ہے جو دوسرے ملکوں کے پاس نہیں: صلاحیت، عزم، پیمانہ، خوش امیدی، تنوع میں وحدت، تعلیم کے لئے مستحکم عہد، آئی ٹی ،میڈیسن، اور سائنسی تحقیق میں عالمی سطح کی عمدگی، وسیع ابھرتا ہوا متوسط طبقہ اورمتحرک جمہوریت۔ بھارت کے پاس ایک اور اثاثہ ہے:مسلح افواج جو اعلی معیار کی حامل ہیں۔اور بھارتی عوام ان کی بے حدعزت کرتے ہیں۔
دوسری، وزیراعظم نریندر مودی نے بھارت کو آگے لے جانے کے لئے ایک زوردار وژن طے کردیا ہےاور ان کی حکومت کے پاس اس کی تکمیل کے لئے بھاری مینڈیٹ ہے۔ انہیں ہمارا مکمل تعاون حاصل رہے گا۔
اس ورلڈ آرڈرمیں ہم بھارت سے کیا توقع رکھتے ہیں؟
پہلی، اپنے خطے میں استحکام پر توجہ۔ بھارت کو جدیدیت اورترقی کے ذریعے 21ویں صدی کی ایک کامیاب طاقت بننے کے لئے اپنی سرحدوں پرامن اورخطے میں استحکام درکار ہوگا۔ جس کے بغیر داخلی پیش رفت ممکن نہیں۔
دوسری، خطے سے باہرمیں سمجھتا ہوں ہم بھارت کو کلیدی عالمی قوتوں کے ساتھ شراکت داری کی کوشش کرتے دیکھیں گے۔ امریکا کے ساتھ جہاں وزیراعظم عنقریب دورہ کررہے ہیں، چین کے ساتھ جس کےرہنما اس ہفتے بھارت میں ہیں، جاپان کے ساتھ جس کا حال میں وزیراعظم مودی نے بڑا کامیاب دورہ کیا ہے۔ میں ملکوں کی اس فہرست میں اپنے ملک کو بھی شامل کرتا ہوں جو بھارت کو تبدیل کرنے کے اہل اوراس مقصد میں مدد دینے کے لئے آمادہ ہیں۔
تیسری توقع جومیں بھارت سے رکھتا ہوں کہ وہ عالمی سطح پرآئندہ کرے گا جو میرا ملک بھی کرتا ہے۔ کہ بقیہ عالمی برادری کے ساتھ اپنے مجموعی مفادات کو آگے بڑھانےکے لئے اور اس دنیا کو سب کے لئے بہتر بنانے کی غرض سے عملی قدم اٹھائے۔
برطانیہ میں ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ بھارت دنیا کے اسٹیج پرایک ذمےدارکردار ہے ، اچھائی، استحکام اور خوشحالی کی قوت ہے۔ اسی لئے میری حکومت سلامتی کونسل میں بھارت کی مستقل رکنیت کا حمایتی ہے اور رہے گا۔
میں سمجھتاہوں کہ کئی امور ایسے ہیں جن پر برطانیہ اوربھارت آئندہ برسوں میں مل کرکام کرتے ہوئے دنیا کو بہتر جگہ بنا سکتے ہیں۔
سب سے پہلے افغانستان کو لیتے ہیں۔
افغانستان برطانیہ اور بھارت دونوں کے لئے بہت اہم ہے۔ یہ ہماری سلامتی کااولین جزہے ایسا افغانستان جو دوبارہ دہشت گردوں کی محفوظ پناہگاہ بن جائے بھارت اور برطانیہ دونوں کے لئے خطرہ ہوگا۔ اس کی تزویری اہمیت ہے کیونکہ ایک غیر مستحکم افغانستان اس پورے خطے اوراس خطے میں برطانیہ کے دوستوں کے لئے خطرہ ہوگا۔
اور اسی لئےمیں آج آپ سب کو یہ نکتہ پوری وضاحت کے ساتھ بتارہا ہوں کہ برطانیہ 2014ء کے بعد بھی افغانستان سے نہیں نکلے گا۔ ہماری لڑاکا فوج نکل جائیگی: بیشتر پہلے ہی چھوڑ چکی ہے۔ لیکن افغانستان ہمارے اورباقی عالمی برادری کے لئے اتنا اہم ہے کہ اسے تنہا نہیں چھوڑا جا سکتا۔
ہم افغان نیشنل آرمی کو تربیت کے ذریعے خود اپنی سلامتی کاذمے داربنا رہے ہیں۔ ہم اس کی معاشی ترقی میں تعاون کرتے رہیں گے ہم افغانستان کی جمہوریت سے تعاون کرتے رہیں گے۔ ہم افغان اداروں کی تعمیر میں مدد دے رہے ہیں تاکہ وہاں اچھی حکومت سازی، قانون کی حکمرانی احتساب اورپائیداراستحکام رہے۔
ہمارا ہدف ایک مستحکم، پرامن، جمہوری اورخوشحال افغانستان ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم اس سمت میں پیش رفت کررہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بھارت کو ایک مرکزی کردارادا کرنا ہے۔ بھارت کے افغانستان میں اہم مفادات ہیں۔ بھارت کی افغانستان سے قربت اوراس کا سائزبتاتا ہے کہ وہ آئندہ برسوں میں ایک کلیدی کردارادا کرے گا۔ اسے افغان عوام کا اعتماد حاصل ہے، عوامی رائے شماری میں بار بار یہ سامنے آتا ہے کہ وہاں بھارت کو کسی بھی ملک کے مقابلے میں سب سے زیادہ عزت دی جاتی ہے۔
بھارت کا 2 بلئین ڈالرکا امدادی پروگرام بھی افغانستان میں بڑا کردارادا کررہا ہے۔ بھارتی کمپنیاں وہاں سب سے بڑی سرمایہ کار ہیں۔
دہشت گردی
اب علاقائی چیلنج سے آئیے عالمی مسئلے کی طرف: دہشت گردی۔
بلاشبہ سب سے بڑا چیلنج بھارت اور برطانیہ کے لئے اس وقت عالمی دہشت گردی ہے۔ عدم استحکام کی ایک کمان سی شمالی افریقہ اور ساحل سے لے کر مشرق وسطی تک تنی ہےعراق اور شام کے حلات ایک خصوصی خطرہ ہیں۔اور دہشت گردی صرف ان کے منبع ملکوں تک محدود نہیں۔اس کی دسترس وسیع اور یہ ہم سب کے لئے خطرہ ہے۔ بھارت اور برطانیہ دونوں کی سڑکیں اس کاشکاربن چکی ہیں۔
ہم ان کو نظراندازکرکے ان خطرات کی روک تھام نہیں کرسکتے۔ ہمیں مستعدرہنا ہے لیکن دہشت گردوں کی دھمکیوں سےڈرنا نہیں ہے۔ اگر ہم مل کر کام کریں تو ہم کامیاب ہوسکتے ہیں۔
دہشت گرد ایجنسیوں سے نمٹنے کے لئے ہم صرف اپنی فوجی قوت پر انحصار نہیں کرسکتے۔ ہمیں موجود تمام وسائل فوجی، انٹیلی جنس، معاشی،سیاسی اورسفارتی سب کو کام میں لانا ہوگا۔ دہشت گرد سیاسی عدم استحکام پر پھلتے پھولتے ہیں۔ اس لئے ہمیں کھلے معاشرے بنانے ہونگے۔ ہمیں خوشحالی بھی درکار ہےبھارت اوربرطانیہ مل جل کر وہ صورت پیدا کرسکتے ہیں جو عالمی نمو اورخوشحالی کےلئے ضروری ہے۔
اب میں آج کا خلاصہ پیش کرتا چلوں۔
مستقبل کے بارے میں پیشین گوئی کرنا خطرے سے خالی نہیں۔ اگر میں اس میں کامیاب ہوتا تو ایک ارب پتی سرمایہ کار ہوتا نہ کہ ایک غریب سفارتکار۔
لیکن یہ کہنا محفوظ ہے کہ اگلے دو عشروں میں دنیا پیچیدہ اور ناقابل پیشین گوئی رہے گی۔ اور وہ مواقع کے ساتھ اتنے ہی خطرات بھی پیدا کرے گی۔
بھارت دنیا میں بڑھتا ہوا اہم کردارادا کرتا رہے گا۔ وہ استحکام، امن اورخوشحالی کے لئے مثبت قوت رہے گا۔
ہم اس کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ ہم اس بہتر دنیاکی تعمیر میں بھارت کے شراکت دار بننے کا عزم رکھتے ہیں۔