لندن کے پارلیمانی اسکوائرمیں گاندھی کا مجسمہ: ایک تاریخی مرحلہ
بھارت میں برطانیہ کے ہائی کمشنرسرجیمز بیون کے سی ایم جی کی ہفتہ 13 دسمبر 2014ء کو چندہ اکٹھا کرنے کی تقریب میں تقریرکا متن:
ایسا عموما ہمیں کم ہی محسوس ہوتا ہے کہ ہم ایک تاریخی موڑ پرموجود ہوں.
مگر بھارت میں کچھ موقعوں پر میں نے یہ محسوس کیا ہے۔ پچھلے انتخابات میں مجھے یہی محسوس ہوا تھا جو کہ نوع انسانی کی تاریخ کی سب سے بڑی مشق تھی۔ مجھے اکتوبر میں بھی یہی لگا تھا جب باہر کے لان پر ایک بڑی تقریب میں ہم نےان ایک ملین بھارتیوں کو خراج تحسین پیش کیا تھا جو پہلی عالمی جنگ میں لڑے تھے اور یہ شاید پہلی دفعہ تھا کہ برطانوی اور بھارتی حکومتوں نے ان کی قربانیوں کا اعتراف کیا تھا.
اور مجھے اب محسوس ہو رہا ہے۔ اگلے سال کے شروع میں لندن کے پارلیمانی اسکوائر میں گاندھی جی کے مجسمہ کو لگانے کے عمل سے ایک بڑی تاریخی صدائے باز گشت پیدا ہوگی.
اس اقدام سے یہ ثابت ہو گا کہ گاندھی برطانیہ کی تاریخ کا بھی اتنا ہی معزز حصہ ہیں جیسے بھارت کی تاریخ کے؛ کہ وہ حقیقی طور پر منفرد انسان تھے جن کا پیغام آج بھی اتنا ہی متعلقہ ہے جتنا کہ ان کی زندگی میں تھا؛ اور جو آدمی جس کے خلاف برطانیہ میں آزادی کی جدوجہد کے دوران اتنی مخالفت تھی اورجو برطانیہ کے خلاف لڑا اورجیتا، آج اس کو برطانیہ میں نہ صرف قبول کیا جاتا ہے بلکہ واجب التعظیم سمجھا جاتا ہے.
یہ پارلیمانی اسکوائرمیں آخری مجسمہ ہو گا اورکسی بھارتی کا پہلا۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے باپو پارلیمانوں کی ماں کے سامنے اپنی نشست سنبھالیں گے.
میرے خیال میں خود گاندھی جی بھی خوش ہوں گے۔ اپنے لیے نہیں کیونکہ وہ خاکسار اور مُنکَسِرُ المِزاج مشہور تھے بلکہ ہمارے دو ممالک کے لیے۔ آزادی کی جدوجہد کے دوران ان سے ایک دفعہ پوچھا گیا تھا کہ “آپ بھارت کو برطانوی سلطنت سے کتنی حد تک علیحدہ رکھنا چاہیں گے” تو انہوں نے جواب دیا کہ “سلطنت سے یقینامکمل طور پر، مگربرطانوی قوم سے بالکل نہیں۔ سلطنت کو جانا ہو گا مگر بھارت کو برطانیہ سے مساوی شراکت سے محبت ہونی چاہیے۔” ہم اب اس مساوی شراکت داری کو ڈھال رہے ہیں اور یہ مجسمہ اس کی علامت ہے.
برطانیہ میں اس مجسمے کے بارے میں بہت جوش و خروش پایا جاتا ہے۔ اس کو بہت توجہ ملی ہے۔ اور اس حقیقت پر کہ یہ بہت لوگوں کے چھوٹے بڑے چندوں یعنی آج کی زبان میں مجمع کے پیسوں سے بنے گا، یہ بات مجھے یقین ہے کہ گاندھی جی کو بھائے گی.
میں آپ سب لوگوں کے آج شام آنے اوراس تاریخی اقدام کے لیے اپنی حمایت کا اظہارکرنے کا شکر گزار ہوں۔ میں خاص طور پر لارڈ میگھناد ڈیسائِی اور کشور کا مشکور ہوں کہ آپ کی قیادت میں اس مجسمے کے لیے چندہ اکھٹا کرنے میں مدد ملی۔ سنینہ آنند کا شکر یہ جنہوں نے مصوروں کے ساتھ مل کر اس نمائش کا اہتمام کیا.
ان شاندار بھارتی مصوروں کا بھی شکریہ جنہوں نے اپنے شاہکار اس موقع کے لیے عطیہ کیے ہیں جو برابر والے کمرے میں نمائش پر ہیں؛ اور جب آپ ان کے فن کے نمونے دیکھ رہے ہونگےتو اس قابل تعریف مقصد کے لیے دل کھول کے عطیات دیجیے.