مسلم کمیونٹی سے نک کلیگ کا اہم خطاب
نائب وزیراعظم نے زوردیا ہے کہ وولچ واقعے کے بعد کمیونٹی کو یکجا ہوکے استحکام اوراتحاد کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے.
یہاں ان کی تقریر سے اہم اقتباسات دئیے جارہےہیں۔
انہوں نے شرکا اوررضاکاروں کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے ہنگامی طور پراس اجتماع کا انعقاد کیاہے۔
کل ہی میرے لندن کی مسلم کمیونٹی کے دوستوں نے اس کی تجویز دی تھی کہ وولچ کے دہشتناک واقعے کے بعد بڑھے ہوئے اضطراب کی صورتحال میں ہم سب کو مل بیٹھنا چاہئیے۔ سب کی مصروفیت کو دیکھتے ہوئے اس طرح کا اجتماع اتنی جلد منعقد کرلینا واقعی قابل تحسین ہے۔ ہم یہاں اس زبردست رنگارنگی کی نمائندگی کررہے ہیں جسے آپ آج جدید لندن کہتے ہیں،مختلف سیاسی جماعتیں، مختلف عقائد، مختلف کمیونٹیز، مسلح افواج اور پولیس کے نمائندے یہاں موجود ہیں۔ میرے اورمیں سمجھتا ہوں کہ میں یہ کہتے ہوئے آپ سب کی نمائندگی کررہا ہوں کہ ہماری دلی ہمدردیاں ڈرمرلی رگبی کے خاندان اور دوستوں کے ساتھ ہیں جسے وحشیانہ طورپربیدردی کے ساتھ وولچ میں قتل کردیا گیا۔
میں سمجھتا ہوں کہ ہمارا یہاں اکھٹا ہونا اس سے کہیں زیادہ اہم ہے جو ہم سب یہاں کہنے والے ہیں کیونکہ ہم کئی مختلف سمتوں، لندن کے کئی متنوع علاقوں سے آئے ہیں اور یہی بذات خود ایک پیغام ہے۔
یہ پیغام خوف کی بجائے امید کا، تقسیم کی بجائے ایک برادری ہونےکا سادہ سا پیغام ہے جو بے حد اہمیت رکھتا ہے۔
آئیے اس کی وضاحت کرتے چلیں کہ جو لوگ کسی گمراہ کن نظریے کا نام لے کریا مذہب کے گمراہ کن تصور کا پرچار کرکےاس طرح کے اچانک، وحشیانہ تشدد کا ارتکاب کرتے ہیں جیسا کہ ہم نے اپنے ٹیلی ویژن اسکرینوں پر دیکھا اورجو کہ خود بڑی تشویش کا سبب بناکیونکہ وہ افراد جس طرح کا لباس پہنے ہوئے تھے اور جس طرح بول رہے تھے اس طرح کے بےشمار نوجوان لندن میں روزانہ ہمیں دکھائی دیتے ہیں۔
ہمیں کسی گمان میں نہیں رہنا چاہئیے، وہ افرادجو چاہتے ہیں بلا شبہ وہ خوف اور تقسیم کے بیج بونے کی کوشش ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ حکومت اور حکام فوری ردعمل میں حد سے بڑھ جائیں۔ وہ یہ چاہتے ہیں کہ کمیونٹیز اپنے اندر محدود اورایک دسرے سے دورہوجائیں۔ مختصرا یہ کہ وہ خوف پھیلانا چاہتے ہیں۔
خوف ایک غیر معمولی طاقتور جذبہ ہے اور جب یہ جڑ پکڑ لیتا ہے توہم سب بطور فردان افراد سے آنکھیں چرانے لگتے ہیں جن سے ہم پہلے کبھی خوفزدہ نہیں ہوئے۔ ہم شاید کسی ایسے شخص کو دیکھتے ہوئے سڑک کے دوسری طرف چلے جائیں جس کے بارے میں ہمیں یقین نہ ہو(کہ وہ کون ہے)۔ ہم اپنے بچوں اور اپنے خاندان کے بارے میں ایسے خوفزدہ ہو سکتے ہیں جیسے پہلے کبھی نہیں ہوئے۔
لیکن ہم انتخاب کر سکتے ہیں کہ خوف کے سائے میں جئیں یادوسرا انتخاب کریں۔ ہم اپنی زندگی معمول کے مطابق گزاریں گے، ہم ایک دوسرے سے ملیں جلیں گے۔ ہم لوگوں سے آنکھ ملاکر بات کریں گے۔ ہم پہلے کی طرح ایک متنوع کمیونٹی بن کر رہیں گے اور یہی راستہ ہے جویہاں آکرآپ نے منتخب کیا ہے۔ میں اس انتخاب پر آپ میں سے ہرایک کوصدق دل سے داد دیتا ہوں۔ یہ ایک مثبت انتخاب ہےاور وولچ میں میں جو ہم نے بدھ کو دیکھا اورسنا اس کا سب سے طاقتور اور پروقار جواب ہے۔
میں آخر میں آپ میں سے ان سب کو خصوصی خراج تحسین پیش کرنا چاہونگا جو ہماری مسلم کمیونٹیز کے لیڈر اور ترجمان ہیں۔جیسا کہ وزیراعظم نے بالکل درست کہا کہ ہم نے جو ان دو افراد سے سنا وہ اسلام سے مکمل منافقت ہے، اسلام جیسے پر امن مذہب کو مسخ کیا گیا ہے اسے الٹ دیا گیا ہےاور ان افراد نے اپنے قابل نفرت اور متشدد مقاصد کے لئے اسے مسخ کیا ہے۔
جیسا کہ آج صبح ایک گفتگو میں میں نے سناکہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا کیونکہ کوئی ایسا مذہبی نظریہ نہیں جوبغیر انتباہ ایسےوحشیانہ تشدد کا جواز دے سکے جو ہم نے وولچ میں دیکھا ۔
آخر میں میں قران مقدس سے پانچویں سورہ کی آیت 32 کا حوالہ دونگا کہ جو ایک شخص کو ہلاک کرتا ہے گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا جبکہ ایک جان بچنے والا گویا پوری انسانیت کو بچانے والا سمجھا جائےگا۔