مستقبل کی تعمیر کے لئے ماضی کی طرف دیکھنا لازم ہے
ڈیوڈ کیمرون نے سینٹ سمفورئین قبرستان میں ایک یادگاری تقریب سے خطاب کیا ہے جو پہلی جنگ عظیم میں برطانیہ کی شمولیت کے سو سال پرمنعقد ہوئی.
سو سال پہلے اس براعظم کے نوجوانوں نے اپنے بیگ تیارکئے،اپنے پیاروں کو الوداعی پیار کیا اور جنگ میں جانے کے لئے تیار ہوگئے.
میں ان لاکھوں ماؤں اور باپوں کے بارے میں تصور کرتا ہوں جو اپنے گھر کے دروازے پرکھڑے ہاتھ ہلا کر اپنے بیٹوں کو رخصت کررہے ہونگے، یہ بھی نہ جانتے ہوئے کہ اب وہ انہیں دوبارہ دیکھ سکیں گے یا نہیں.
یوں توہرجنگ ظلم ہوتی ہے.
لیکن یہ جنگ تو سب سے الگ تھی.
ناقابل بیان تباہی، ناقابال برداشت نقصان اور ناقابل بیان شجاعت.
سو سال ہوتے ہیں اور اب یہاں – اور دنیا بھر میں- اس کی یاد میں ہمارا اکھٹا ہونا بالکل صحیح ہے.
ہم جنگ عظیم کے وسیع پیمانے کو یاد کررہے ہیں۔ ایک تنازع جو مغربی محاذ سے مشرق وسطی کے ریگزاروں تک ؛ پولینڈ کے میدانوں سے آسٹریا کے منجمد پہاڑوں تک پھیلا اوراس نے لاکھوں افراد کونیست ونابود کردیا اور لاکھوں پر اس کے اثرات پڑے.
اس کے اچھے اور برے اثرات ہم پر اب تک باقی ہیں.
ہم اس کے اسباب کو یاد کرتے ہیں۔ اکثر اسے ایک بےمعنی جنگ کہہ کر مسترد کردیا جاتا ہے، جسے لڑنے والے بھی نہیں جانتے تھے کہ کیوں لڑ رہے ہیں۔ لیکن یہ بات غلط ہے.
ان تمام نے ایک براعظم کے تسلط سےبچنے ، آزادی کے اصولوں اور اس خودمختاری کی حفاظت کے لئے دستخط کئے جو آج ہمیں اس قدرعزیز ہے.
شاید سب سے زیادہ – آج جنگ عظیم کے سو سال گزرنے پر- ہمیں انسانوں کے ساتھ بیتے واقعات کو یاد کرنا ہے جو شاعری ، ادب اور تصاویر میں پیش کئے گئے اوراب بھی ہمارے لئے مسحورکن ہیں.
تاریخ نہ دکھائی دینے والی قوتیں نہیں بناتیں، وہ لاکھوں افراد بناتے ہیں جو منصوبہ بندی کرتے، اور کام کرتے، اور محبت کرتے اور لڑتے ہیں،چیزیں تباہ کرتے ہیں اور دوبارہ انہیں بناتے ہیں.
تاریخ انسانی واقعات سے بنی ہے۔
اور اس لئے ہم انہیں یاد کرتے ہیں:
وہ نوخیز نوجوان جو یہاں میدانوں میں لڑے- خوفزدہ اور گھر کو یاد کرتے ہوئے.
مرد جنہوں نے اپنے دوستوں کے لئے جانیں دیں.
سابق فوجی جو پہلے جیسے نہیں رہے.
خاندان جنہوں نے خاموشی سے زخم برداشت کئے.
میز پر وہ جگہ جو پھر کبھی نہ بھر پائی، شادیاں جو کبھی نہ ہوسکیں، بچے جو دنیا میں نہیں آسکے.
یہ جنگ بے پناہ انسانی زیاں ساتھ لائی۔ اور ہمیشہ, ہمیشہ اسےیاد رکھنا ہوگا خواہ ہم کتنے بھی مصروف ہوں۔ .
جدید زندگی میں زیادہ تر دوڑ بھاگ اگلے قدم کے لئے ہورہی ہے، مستقبل کی طرف دوڑ.
لیکن ہم سب واقعات کے ایک طویل تسلسل سے جڑے ہوئے ہیں؛ ہم سے پہلے جیتی جانے والی جنگوں کے وارث ؛ دنیا کے اگلے چلانے والے جو اگلی نسل کو وراثت میں ملیں گے.
اس مستقبل کو شکل دینے کے لئے ہمارا ماضی کی طرف دیکھنا لازمی ہے.
یورپ کے براعظم میں یہ جنگ جنگوں کو ختم کرنے والی جنگ نہیں تھی بلکہ دو دہائی بعد ہی ایک اور تباہ کن اور پر تشدد تنازع کھڑا ہوگیا.
ہمیں اب ان قوموں کے درمیان امن کی قدر کرنا چاہئیے اور اس صبر آزما جدوجہد کو کبھی کم نہیں سمجھنا چاہئیے جواس امن کی تعمیر کے لئے کی گئی ہے.
لہذا سو سال گزرنے پر یہ صحیح ہے کہ ہم اجتماعی طور پر توقف کریں،سوچیں اور اگلے سو سال کے لئے یہ طے کریں:
ہم انہیں کبھی فراموش نہیں کریں گے۔ ہم انہیں ہمیشہ یاد رکھیں گے.