اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں ٹریزا مے کی تقریر
وزیراعظم نے اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں اپنے پہلے خطاب میں اعلان کیا کہ برطانیہ ایک بااعتماد اور قابل بھروسا شراکت دارکا کمٹ منٹ رکھتا ہے.تقریرسے اہم اقتباسات
اقوام متحدہ اس لئے تشکیل دی گئی تھی کہ دنیا کے رہنماوں کو علم تھا کہ وہ اپنے ملک میں اپنے شہریوں کو تحفظ اسی وقت فراہم کرسکیں گے جب وہ قوموں کی ایک برادری کی شکل میں ایک دوسرے سے تعاون کرکے عالمی تحفظ فراہم کرسکیں۔
آج ہم سب کو جن خطرات کا سامنا ہے ان میں سے چند تو ان بانی رہنماوں کے لئے وہی ہیں، جنگ، سیاسی عدم استحکام، انسانی حقوق کی پامالی اورغربت۔
دوسرے نئے ہیں : عالمی دہشت گردی ، ماحولیاتی تبدیلی اورلوگوں کی بڑے پیمانے پر منتقلی جس کی کوئی مثال پہلے نہیں ملتی۔ ہم یہاں اس لئے جمع ہوئے ہیں کیونکہ ہم جا نتے ہیں کہ ایسے چیلنج ہماری انفرادی سرحدوں کا احترام نہیں کرتے اور صرف سا تھ کام کرنے سے ہی ہم ان پر قابو پاسکیں گے۔
برطانیہ کی نئی وزیراعظم کی حیثیت سے اقوام متحدہ کے سامنے میراعہد سادہ ہے: برطانیہ ایک بااعتماد، مستحکم اورقابل بھروسا عالمی شراکت دار رہے گا- ان عالمی اقدارکا پابند جوہم سب کی مشترکہ ہیں۔
ہم اپنی مجموعی قومی آمدنی کا 7۔0 فی صد ترقی، غربت میں کمی ، عدم استحکام کے تدارک اوردنیا بھرمیں خوشحالی میں اضافے پر خرچ کرنے کے باب میں ہم نے جو کامیابیاں پہلے ہی حاصل کرلی ہیں ان میں پیش رفت کے کمٹمنٹ کے پابند رہیں گے۔ اور ہم پائیدار ترقیاتی اہداف پر عملدرآمد کو آگے بڑھاتے رہیں گے
ہم خواتین اورلڑکیوں کے حقوق کی قیادت کرتے رہیں گے اورتمام لڑکیوں کے لئے ان کی مرضی کی تعلیم کو یقینی بنائیں گے اور بھیانک قسم کی بدسلوکی جیسے جنسی اعضا کی قطع و برید اور تنازعات میں جنسی تشدد کے استعمال کی روک تھام کریں گے۔
ہم سلامتی کونسل کے ایک ثابت قدم مستقل رکن ہیں، نیٹو کے لئے اپنی مجموعی قومی آمدنی کا 2 فی صد دفاع پرصرف کرنے اور اقوام متحدہ کی قیام امن کوششوں میں بڑا کردار اداکرنےکے کمٹمنٹ کے پابند جہاں ہم نے اسے دگنا کردیا ہے اور صومالیہ اور جنوبی سوڈان میں نئی فوجی تعیناتی کا کمٹ بھی شامل ہے۔
ہم ماحولیاتی تبدیلی کے لئے بین الاقوامی کوششوں میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔ اور پیرس میں کئے گئے معاہدے کے لئے اپنے عہد کا مظاہرہ کرنے کے لئے برطانیہ اپنا وہ داخلی طریقہ کار شروع کردے گا جس سے پیرس معاہدے کی توثیق اور اس سال کے خاتمے سے پہلے اس کی تکمیل ممکن ہوسکے۔
لیکن ہمیں یہ ضرور جان لینا چاہئیے کہ ہم یہاں اقوام متحدہ میں ان مردو خواتین کے ملزم کی حیثیت سے کھڑے ہیں جن کی اپنے ملک میں ہم نمائندگی کرتے ہیں۔
اور جب ہم یہ سمجھ لیں تو ہمیں یہ بھی جان لینا ہوگا کہ ان میں سے بہت سے مرداور عورتوں کے لئے عالمگیریت کی بڑھتی ہوئی رفتاران میں پیچھے رہ جانے کا احساس پیدا کررہی ہے۔
اس کمرے میں موجود ہم لوگوں کے لئے چیلنج یہ ہے کہ ہم کو یہ یقینی بنانا ہے کہ ہماری حکومتیں اوراس اقوام متحدہ جیسے ہمارے عالمی ادارے ان لوگوں کے لئے جوابدہ رہیں جن کی ہم خدمت کرتے ہیں۔ کہ ہم اپنے اداروں کو 21 ویں صدی کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کے اہل ہیں اوران کوغیرمتعلق نہیں ہونے دیں گے۔
تو جب ہمارے عہد کے سلامتی اورانسانی حقوق کے بڑے چیلنج کی بات آتی ہے تو ہمیں اس اقوام متحدہ کی ضرورت پڑتی ہے تاکہ ایک نیادلیرانہ کثیرالجانب نظام تشکیل دیا جاسکے۔
ہم نے گزشتہ ہفتے میں مشہدہ کیا ہے کہ کوئی بھی ملک عالمی دہشت گردی کے خطرےسے محفوظ نہیں ہے ۔ اور جب انتہا پسند دنیا میں کہیں بھی اپنے زہر آلود نظرئیے ان لوگوں کی خوابگاہوں میں براہ راست پہنچا سکتے ہیں جو بنیاد پرستی کے باب میں کمزور واقع ہوئے ہیں تو ہمیں نہ صرف قوموں میں تنازع اورعدم استحکام سے بچاو کے لئے ساتھ مل کر کام کرنا ہےبلکہ دہشت گردوں کے گروہوں کے عالمی جال کو توڑنا بھی ہے جو وہ اپنی کارروائی میں مالی اخراجات اور بھرتیوں کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
جب ہم لوگوں کی وسیع پیمانے پر بے دخلی دیکھتے ہیں جو حالیہ تاریخ میں اتنے بڑے پیمانے پر نہیں دیکھی گئی تو ہمیں ان پالیسیوں پرعمل کو یقینی بنانا ہوگا جو آج کے چیلنجز سے نمٹنے کی اہل ہیں۔
اور جب مجرم گروہ ہماری قومی سرحدوں کا احترام کرتے ہوئے ہمارے ساتھِ شہریوں کو غلامی کے لئے ناجائز طور سے اسمگل کرتے ہیں توہم ان سرحدوں کو ایسے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے تک لانے کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دیتے۔
ان میں سے ہر میدان میں اقوام متحدہ کی قائدانہ قوت ہمیں جوابی کارروائی کاایک منفرد موقع فراہم کرتی ہے۔ لیکن ہم یہ تب ہی کرسکتے ہیں جب ہم 21 ویں صدی کے چیلنجز سے نمٹنے کے لئے جدت اورمطابقت پیدا کرلیں۔
دہشت گردی کے بارے میں وزیراعظم نے کہا۔
اقوام متحدہ کی شکل میں ہم نے دکھادیا ہے کہ ہم کس طرح مل کر تنازعات اورعدم استحکام پرقابو پاکےبین الاقوامی دہشت گردی کے خطرے میں کمی لاسکتے ہیں۔
آج کے دہشت گردی خطرات چونکہ کسی ایک ملک کی طرف سے نمودارنہیں ہوتےبلکہ ایک مختلف فضا میں موجود رہتے ہیں۔ جن عالمی نیٹ ورکس کا وہ استحصال کرتے ہیں اس کے لئے مختلف قسم کی عالمی کارروائی کی ضرورت ہے۔
یہ تنظیمیں ہمارے اپنے جدیدبینکاری جال کو استعمال کررہی ہیں۔ اس لئے ہمیں اپنے ضوابط، معلومات کے تبادلے پرنظر ڈالنا ہوگی اوراپنی ٹیکنالوجی کی صلاحیتوں کو کام میں لاکے ان سے آگے نکلنا ہوگا۔
وہ ہماری ائر لائنوں کو نشانہ بنارہے ہیں، اس حقیقت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کہ کوئی بھی ملک اپنے شہریوں کو اس وقت تحفظ فراہم نہیں کرسکتا جب وہ مختلف دائرہ ہائے اختیار کے درمیاں فضائی سفر کررہے ہوں۔
اسی لئے اس ہفتے اقوام متحدہ اس قرارداد کے لئے رائے شماری کرے گی جو برطانیہ کی قیادت میں فضائی سلامتی کے لئے پیش کی گئی ہے تاکہ ہر ملک وہ معیاراپنے ہاں لاگو کرے جس سے یہ یقینی ہوجائے کہ کوئی بھی ملک فضائی نیٹ ورک کی کمزور کڑی نہیں ہے۔
وہ ایسے نظرئیے کو پھیلانے کے لئے انٹرنیٹ اورسوشل میڈیا کا استحصال کررہے ہیں جس سے دنیابھر سے ان کے مقصد کے لئے لوگوں کو بھرتی کیا جاسکے۔ اس لئے اس نظرئیے کا ہمیں ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ برطانیہ نےایسے کام میں معاونت کی ہے جو سکریٹری جنرل نےمتشدد انتہا پسندی کی روک تھام کے لئے حکمت عملی تیار کرنے کے لئے کیا ہے۔ اب ایک بین الاقوامی برادری کی حیثیت سے ہمیں جامع ترین نیشنل ایکشن پلان بنانا اور ان پرعملدرآمد کرنا ضروری ہے تاکہ ہرقسم کی انتہا پسندی کے اسباب اورعلامتوں سے نمٹا جاسکے۔
صرف متشدد انتہا پسندی پر توجہ دینا کافی نہیں۔ ہمیں انتہاپسندی کے مکمل خطرے، متشدد انتہا پسندی اورغیرمتشدد انتہا پسندی، اسلامی اور نیو نازی ، خوف اور نفرت کی تمام اقسام کو نظر میں رکھنا ہوگا۔
اس لئے یہ وقت اپنی اقوام متحدہ سے پیٹھ پھیرنے کا نہیں۔ یہ وقت اس کی جانب دیکھنے کا ہے۔
صرف ہم، اس برادری کے رکن کی حیثیت سے، یہ یقینی بناسکتے ہیں کہ یہ عظیم تنظیم ہمارے مستقبل میں بھی اسی طرح کارآمد رہے جیسے ماضی میں رہی ہے۔
تو آئیے اپنی بنیادی اقدار پر قائم رہتے ہوئے لیکن آج کے چیلنجوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے مل جل کرآنے والی نسلوں کے لئے ایک محفوظ تر، زیادہ خوشحال اورانسان دوست دنیا کی تعمیرکریں۔