''بیرون ملک دہشت گردی سے نمٹتے ہوئے ہمیں اپنی داخلی ذمے داریوں سے توجہ نہیں ہٹانا ہے۔''
اقوام متحدہ میں یوکے مشن میں برطانوی سفیرمارک لائل گرانٹ نے جنرل اسمبلی کے اعلی سطحی موضوعاتی بحث '' رواداری ومصالحت کا فروغ: پر امن، مشمولی معاشرے اور پرتشدد انتہا پسندی کی روک تھام''۔
میں آج کےاس اہم اجلاس کے انعقاد پر جناب صدر آپ کا شکر گزار ہوں۔
رواداری تمام پرامن، مشمولی معاشروں کابنیادی پتھرہے۔ یہ مصالحت کے لئے لازمی ہے اوریہ اقوام متحدہ کے منشوراور اس کے کاموں میں اس کی جڑیں گہری ہیں۔ پرتشددانتہا پسند گروپ خواہ وہ داعش، القاعدہ، الشباب ہوں یا کوئی اورہم سب کے لئے براہ راست چیلنج ہیں۔ان کی بربریت کی کوئی انتہانہیں۔ وہ آزادئ اظہارکوکچل دیتے ہیں اورعورتوں کو تشدد سے دباتے ہیں۔ وہ معصوم لوگوں کو ان کے مختلف عقائدیا جنسی رحجان کی وجہ سے سزادیتے ہیں۔ یہ گروپ ہماری مشترکہ اقدار کے لئے خطرہ ہیں اورعالمی امن اورسلامتی کوعدم استحکام سے دوچار کرتے ہیں۔ آج میں اپنا بیان دو نکات پرمرکوز کرونگا؛ پہلا، انتہا پسندی کے خطرے سے دوچار ملکوں میں رواداری اور مصالحت کے جڑیں پکڑنے کے لئےہم سب ملک اقدامات کر سکتے ہیں اوردوسرا، ہم اپنے ملک میں اپنی کمیونٹیز کو درپیش خطرات میں کمی کے لئےجو اقدامات کرسکتے ہیں۔
جناب صدر، تاریخ بتاتی ہے کہ جوحکومتیں اپنے تمام عوام کا یکساں خیال نہیں رکھتیں وہ نفرت اورعدم برداشت کو جنم دیتی ہیں۔ اور لوگوں کے عزائم کی تکمیل میں ناکامی سے ایسی زمین ہموار ہوتی ہے جہاں انتہاپسندی جڑیں پکڑسکتی ہے۔ شام میں داعش کا عروج بشارالاسد کی بےرحم حکومت کا براہ راست نتیجہ ہے۔
خطے میں اکثرعوام کوایک طرف ایک غیر نمائندہ، غیرموثرلیکن غاصب حکومت اوردوسری طرف بے رحمانہ شورش میں سے ایک جعلی انتخاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مذہب کو لوگوں کو اکھٹا کرنے کے لئے شریک انتخاب، گمراہ اوراستحصالی ذریعے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سے نمٹنے کے لئے ہم تین چیزیں کرسکتے ہیں۔
پہلی، ہم ان لوگوں سے مذہب واپس لے سکتے ہیں جو اس کا استحصال کرتے ہیں۔ باعزت، معتدل آوازیں انتہا پسندوں کے زہرآلودنظرئیے کو کمزور کرسکتی ہیں۔ چیلنج یہ نہیں کہ انتہا پسندوں کے خودشکستہ بیانئیے پر حملہ کیاجائے بلکہ یہ یقینی بنانے میں ہے کہ یہ معتدل آوازیں نوجوان اور کمزور افراد تک پہنچ رہی ہوں۔ سیاسی رہنمااپنے طور پر یہ نہیں کر سکتے۔ اس کے لئےمعزز مذہبی رہنماؤں کو، خاص طور پر وہ جن کا نوجوانوں پراثرہوواضح طور سے اور مسلسل اس پیغام کے ساتھ آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے کہ ‘’ ہمارے مذہب کے نام پرنہیں۔’’ اسلئے میں کل کے اجتماع کا خیرمقدم کرتا ہوں جس میں کئی ممتاز مذہبی رہنما شریک ہونگے۔
دوسری، ہم ملکوں کو موثراورمشمولی قومی اداروں کی تشکیل میں مدد دے سکتے ہیں۔ اس میں وقت لگے گا اوراس کے لئے مالی اعانت کی ضرورت ہوگی۔ لیکن مساوی معاشی اور سیاسی موقع کے اشتراک سے ان مفروضہ ناانصافیوں کو دور کرنے میں مدد ملے گی جنہیں استعمال کرکے انتہا پسند کمزورافراد کو بھرتی کرتے ہیں۔ برطانیہ اس میں اپنا کردارادا کرے گا۔ ہمیں فخر ہے کہ ہم نے اپنی مجموعی قومی آمدنی کا 0.7فی صد بیرون ملک امداد میں دینے کا وعدہ پورا کردیا ہے جو غربت اور عدم مساوات سے نمٹنے کے لئے تھی۔ جی 20 ممالک میں سے صرف ہم ہی یہ کام کرسکے ہیں۔
اور تیسری، ہم یہ یقینی بنا سکتے ہیں کہ عورتیں سیاسی اداروں، امن عمل اور مصالحتی کوششوں میں مکمل اورسرگرم کردار کریں۔ نصف آبادی کو کنارے پر رکھنا ان کی ضروریات کو نظرانداز کرنا اورانتہا پسندی کے خلاف ہماری کوششوں کو کمزور کرنا ہے۔ سلامتی کونسل نے جیسا کہ گزشتہ ہفتے سنا ہے کہ خواتین ان پرتشددانتہا پسندوں کے ہاتھوں زیادہ نشانہ بنتی ہیں۔ جنسی تشدد داعش اوربوکو حرام کاایک ہتھیاربن چکا ہے۔ قرارداد1325کی اس پندرھویں سالگرہ پر ہمیں یہ یقینی بنانے کی ہرممکن کوشش کرنا ہوگی کہ انتہا پسندی سے نمٹنے کی ہماری کوششوں میں عورتیں مرکزی مقام کی حامل ہوں۔
برطانیہ اپنے کثیر الثقافتی، کثیر النسلی اور کثیر المذہبی معاشرے پر فخر کرتا ہے۔ لیکن ہم مانتے ہیں کہ انتہاپسندی صرف بیرون ملک تک محدود نہیں۔ ہماری کمیونٹیز بھی خطرے میں ہیں۔ اور کئی نوجوان برطانوی مردعورتیں ان بلاووں کو سن کر شام میں داعش میں شامل ہوچکے ہیں۔ لہذاجب ہم بیرون ملک انتہا پسندی سے نمٹنے کے لئے تمام اقدامات کررہے ہوں وہاں ہمیں اپنی داخلی ذمے داریوں کونظرانداز نہیں کرنا چاہئیے۔ ہم انتہا پسندی کے تمام تناظر پر توجہ کرنے کے قائل ہیں؛ خواہ وہ تشدد سے پاک ہو یا پر، ثقافتی ہو یا نظریاتی، اسلامی یا نیو نازی۔ اسی لئے میری حکومت نے ایک انتہا پسندی تجزیاتی یونٹ (Extremism Analysis Unit) قائم کیا ہےجو انتہا پسندی کے داخلی اور بیرون ملک مختلف محرکات کا جائزہ لے گا، مستقبل میں ہماری پالیسی ترجیحات سے مطلع کرے گا۔
اس کام کے ساتھ ہم مثبت برطانوی اقدارکے ایک مجموعے کے فروغ میں یقین رکھتے ہیں جو یہ بتائیں کہ ہم کون ہیں اور کن چیزوں کے لئے کھڑے ہیں۔ وہ اقدار جو شہریوں کی آزادی اور مساوات کا احترام کرتی ہیں خواہ ان کا عقیدہ یا مذہب کچھ بھی ہو، ان کا جنسی رحجان یا صنف کوئی بھی ہو۔ وہ اقدار جو یہ تسلیم کرتی ہیں کہ دوسروں کی آزادی کا احترام بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا خود اپنی آزادی کا۔ یہ اقدار’مغرب اسلام کے ساتھ جنگ کررہا ہے’ کے کلیے کو چیلنج کرنے میں ہماری مدد کرسکتی ہیں۔ اور وہ انتہا پسندوں کی آوازوں کو کنارے لگانے اور دلیل کی آوازوں کو بلند ترکرنےمیں کام آسکتی ہیں۔
Updates to this page
شائع کردہ 21 اپریل 2015آخری اپ ڈیٹ کردہ 21 اپریل 2015 + show all updates
-
Added translation
-
First published.