تقریر

'سفارتکارصحافیوں کی مانند کیوں ہوتے ہیں'

بھارت میں برطانوی سفیر سر جیمس بیون کی تقریر جو انہوں نے سالانہ میڈیا لنچ میں 13 دسمبر 2013ء کوکی۔

اسے 2010 to 2015 Conservative and Liberal Democrat coalition government کے تحت شائع کیا گیا تھا
Sir James David Bevan KCMG

وزارت خارجہ میں میڈیا تربیتی کورس میں پہلی جو بات آپ کوبتائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ ‘آف دا ریکارڈ’ کوئی چیز نہیں ہوتی۔ یہ واقعی درست ہے خاص طور پر بھارت میں ۔ لیکن کم ازکم بھارتی صحافی ہمارے ساتھ رعایت ضرور کرتے ہیں کہ جب آف دا ریکارڈ بات ہو تو اپنے قارئین کو بتادیتے ہیں کہ یہ آف دا ریکارڈ ہے۔ یہ ضروری ہے کہ آپکے قارئین کو معلوم ہو کہ ان کے لئے کیا جاننا ضروری ہے اور کیا نہیں۔

دوسری بات جو آپ کوبتائی جاتی ہے کہ آپ میڈیا کی بس کو ہمیشہ وزیراعظم کے قافلے کے درمیان میں رکھیں کیونکہ اگرمیڈیا پیچھے رہ گیا تو خفاہوجائے گا اور وہ عام سے زیادہ بری کہانیاں آپ کے بارے میں شائع کرے گا۔ امید ہے کہ آپ آج ہم سے اتنے خفا نہیں ہونگے۔اگر کھانے یا مشروبات میں کوئی گڑبڑ ہو تو مارکس سے شکایت کیجئیےگا۔

اور تیسری بات اس میڈیا تربیتی کورس میں صحافیوں کے ساتھ ہمیشہ دوستی کا رویہ اپنانے کی نصیحت ہے۔ کیونکہ صحافیوں کی زندگی مشکل ہوتی ہے اوربہت سے لوگ صحافیوں کو بھی اتنا ہی ناپسند کرتے ہیں جتنا کہ سفارتکاروں کو۔ لہذا میں آپ شریک دردوغم بھارتی، برطانوی اورعالمی میڈیا کےساتھیوں کو اپنے گھرپرخوش ا٘مدید کہتے ہوئے خوشی محسوس کررہاہوں۔

لوگ سمجھتے ہیں کہ سفارتکار کی زندگی بڑی چکا چوند والی ہوتی ہے اورصحافی ہونا بھی بڑا دلفریب ہوتا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ یہ غلط ہے۔ برطانوی مصنف جی - کے - چیسٹرٹن کو بھی یہ معلوم تھا ۔ انہوں نے لکھا’’ صحافت سے مراد زیادہ تر اس طرح کی خبر ہوتی ہےکہ’لارڈ جونز چل بسے’اوران لوگوں کو بتائی جاتی ہےجن کو یہ بھی پتا نہیں کہ لارڈ جونز زندہ تھے’‘۔

مجھے ڈر ہے کہ آپ میڈیا والےبھی مبصرین میں اتنے ہی نامقبول ہیں جتنے کہ ہم سفارتکاری میں۔ جب میں اس تقریر کی تیاری کررہا تھا تو مجھے حیرانی ہوئی بلکہ شاک سا لگا کہ آپ کے ہنر کے بارے میں بہت سے باتیں تعریفی نہیں ہیں۔

آسکر وائلڈ کا خیال تھا کہ صحافت اچھی چیز ہے کیونکہ ‘غیر تعلیم یافتہ لوگوں کی رائے ہمیں بتا کے صحافت ہمیں کمیونٹی کی لاعلمی سے باخبررکھتی ہے’

نارمن میلر نے تو اور بھی سخت بات کہی، ‘اگر کوئی شخص ناول لکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا،وکیل بننے کے لئے ہوشیاری اس میں نہیں ہوتی اور ہاتھ اتنے کپکپاتے ہیں کہ آپریشن نہیں کرسکتا تو وہ صحافی بن جاتا ہے۔

اوائل بیسویں صدی کا برطانوی مصنف ہمبرٹ وولف آج خاص طور پر اس نظم کے حوالے سے یاد کیا جاتا ہے:

’’ آپ رشوت دینے یا بات کو مسخ کرنے کی توقع نہیں رکھتے، شکر ہے خدا کا

برطانوی صحافی

لیکن یہ دیکھنا کہ وہ کیاکرتا ہے

بغیر رشوت کے، توایسا کوئی موقع نہیں آتا

میڈیاکے بارے میں ایسا ہی نفرت انگیز نکتہ نظر ہمیں برطانیہ کی ایک سیریز ‘یس منسٹر’ میں ملتا ہے جسے آپ بھارتی اور ہم برطانوی خوب جانتے ہیں کہ وہ ایک کامیڈی نہیں بلکہ ڈاکومینٹری ہے۔

ایک منظر میں سرہمفری جو ایک سازشی مستقل سکریٹری دکھائے گئے ہیں، اپنے پرائیویٹ سکریٹری برنارڈ سے کہتے ہیں’ برنارڈ ہمیشہ یاد رکھو کہ اصولا وزیروں کو اس سے زیادہ کچھ نہیں بتانا ہے جتنا ان کے لئے جاننا ضروری ہے’۔ ‘وہ کیوں؟’ برنارڈ سوال کرتا ہے۔ سر ہمفری بتاتے ہیں’ اس لئے کہ وزیر سیکرٹ ایجنٹ کی طرح ہوتے ہیں انہیں پکڑ کر تشدد کیا جاسکتا ہے’۔ برنارڈ سوال کرتا ہے’کیا دہشت گردوں کے ہاتھوں؟’’ ‘نہیں’، سر ہمفری کہتے ہیں، ‘بی بی سی کے ہاتھوں’

میں ان سب باتوں پر یقین نہیں کرتا ۔ میں صحافیوں کو پسند کرتا ہوں اورزیادہ تر صحافیوں کی عزت کرتا ہوں۔اگرچہ آپ صحافیوں اور ہم سفارتکاروں کے درمیاں تعلقات کبھی کبھی معاندانہ ہوجاتے ہیں لیکن ہمارے درمیاں بہت کچھ مشترک ہے۔ ہم دونوں کو یہ تربیت دی گئی ہے کہ ہربات جو سنیں اس پر یقین کرنا ضروری نہیں۔ ہم شاید اعتراف نہ کریں لیکن دونوں دنیا کو ایک بہترمقام بنانا چاہتے ہیں۔

لیکن میرا مشاہدہ ہے کہ ایک پہلو سے میڈیا اورسفارتکاری میں فرق ہے۔ ایک عام اصول کے مطابق جوکہ غیرمنصفانہ ہے، نشریاتی میڈیا اوراخباری صحافت، چیزوں کو آسان اور بڑھا چڑھا کے پیش کرتے ہیں جبکہ ہم سفارتکارچیزوں کو پیچیدہ اورگھٹا کرسامنے لاتے ہیں۔

برطانوی یوں بھی گھٹانے کے عادی ہیں اورجب آپ ایک برطانوی اورسفارتکار کے فطری ادھورے بیان کو یکجا کردیں تو تو یہ گویاادھورے پن کو ضرب دینا ہوگا۔ برطانوی سفارتکاری میں درحقیقت ہمیں کم بتانے کی تربیت دی جاتی ہے۔ مجھے وزارت خارجہ میں پہلے دن جو اب سے تیس سالسے زیادہ عرصے کی بات ہے، بتایا گیا کہ اپنا موقف بیان کرتے وقت کبھی چلاؤ نہیں ،کبھی جذباتی مت بنو، اوراس سے بھی بڑھ کریہ کہ جوبھی کہو کم کرکے کہو۔ انہوں نے اس کے لئے ہمیں ایک مثال بھی دی:

اگر آپ ماسکو میں ہیں( یہ سرد جنگ کا زمانہ تھا) اورآپ کو کریملن میں یہ بتانے کے لئے بلایا جاتا ہے کہ روس نے برطانیہ پر میزائل پھینکا ہے۔ تو اب آپ کوکیا کرنا ہے۔ آپ بالکل سیدھے ہوکر پوری قامت پرکھڑے ہوجاتے ہیں اور کہتے ہیں؛ ‘ یہ ایسا معاملہ ہے کہ جس سے ملکہ عالیہ کی حکومت بے نیازی نہیں برت سکتی۔’’

لہذا خواتین وحضرات !چیخے چلائے بغیر، جذ باتی بنےیا بڑھا چڑھاکے کہے بغیر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمیں آپ کو یہاں پاکر کتنی خوشی ہوئی ہے، ہمیں گزشتہ برس آپ کے ساتھ کام کرکے کتنا لطف آیا ہےاور یہ کہ آپ سب کے لئے 2014ء میں خوشیوں اور کامیابی کی تمنا ہماری طرف سے۔ .

Updates to this page

شائع کردہ 13 دسمبر 2013