تقریر

برطانیہ،بھارت اور افغانستان

بھارت میں برطانیہ کے ہائی کمشنرسرجیمز بیون کی تقریر کے اہم اقتباسات جو انہوں نےوویک آنند انٹرنیشنل فاؤنڈیشن میں کی.

اسے 2010 to 2015 Conservative and Liberal Democrat coalition government کے تحت شائع کیا گیا تھا
Sir James David Bevan KCMG

برطانیہ/بھارت

*ہمارے مفادات مشترکہ ہیں۔ایک پرامن،خوشحال اور منصفانہ دنیا۔ اصولوں پر مبنی عالمی نظام۔

  • ہم اپنے عوام کے لئے اہم پہلوؤں پرمل جل کر کام کررہے ہیں اوراس مہم میں ہم پیش رفت کررہے ہیں۔۔.

*خوشحالی: ہم دونوں ملک مل جل کر اپنے عوام کوخوشحالی کی طرف لے جارہے ہیں۔ داخلی سرمایہ کاری دونوں طرف سے کامیاب ہے،بھارت اب برطانیہ میں پوری یورپی یونین کے مقابلے میں زیادہ سرمایہ کاری کررہا ہے۔اور برطانیہ کئی اعتبار سے بھارت میں سب سے بڑا سرمایہ کار ہے۔اس سے دونوں ملکوں میں ہزاروں ملازمتیں پیدا ہورہی ہیں اورنمومیں اضافہ ہورہا ہے.

*تحفظ: ہم مل جل کر اپنے عوام کو مزید محفوظ کررہے ہیں۔بھارت اوربرطانیہ میں سلامتی، انسداد دہشت گردی اور سائبر حملوں کے باب میں اب پہلے سے کہیں زیادہ تعاون ہے۔آج برمنگھم اور بنگلور کی سڑکوں پر لوگ اس کام کی وجہ سےزندہ سلامت ہیں جو ہم دونوں ملکوں نے مل کر انکے تحفظ کے لئے کیا ہے۔ مجرم ہماری عدالتوں سے سزائیں پارہے ہیں کیونکہ ہماری پولیس اورعدالتی نظام کے درمیان تعاون بڑھ رہا ہے.

*عالمی چیلینج: بھارت اور برطانیہ مرکزی حکومت اور ریاستی دونوں سطحوں پر مل جلکر دونوں ملکوں کو درپیش ، موسمیاتی تبدیلی اورتوانائی کا تحفظ جیسےعالمی چیلنجز کا مقابلہ کررہی ہے.

*ترقی:برطانیہ اور بھارت نے ایک نئی جدید طرز کی شراکت داری برائے ترقی پر اتفاق کیا ہے جس سے 2015ء میں بھارت کے لئے برطانیہ کی امدادی گرانٹ ختمہوجائے گی اوراس کی جگہ نجی شعبے کی قیادت میں نمو سے تعاون کے لئے قرضے دئیے جائیںگے جن سے غریبوں کوغربت سے نکلنے میں مدد ملے گی،ٹیکنیکل مشورے اورعالمی ترقی پراثر اندازہونے والےعالمی پالیسی امور پر تعاون ہوگا.

*خارجہ پالیسی:بڑے مسائل میں سے اکثر پربرطانیہ اوربھارت ایک جیسے اہداف رکھتے ہیں تاہم ان کو حاصل کرنے کے طریقہ کار میں کبھی کبھی فرق ہوتا ہے۔ خارجہ پالیسی کے کئی امورپراب ہم قریبی تعاون سے کام کررہے ہیں۔ایران سے جوہری معاہدہ،اگر کامیاب ہوگیا،تو یہ مذاکرات کے ذریعے پرامن طریقے سے معاملت کی کامیابی ہوگی جس کے بھارت اوربرطانیہ دونوں حامی ہیں.

ہمارے عوامی،تجارتی، ثقافتی اورتعلیمی رشتے اگرچہ بہت مضبوط ، گہرے اوروسیع ہیں لیکن ہم انہیں اوربھی بہتر بناسکتے ہیں۔ اس کی تین مثالیں یہ ہیں:

  • تجارت: تجارتی اعدادوشمار میں ترقی کے باوجود برطانیہ اب بھی سوئٹزرلینڈ کو زیادہ مصنوعات فروخت کرتا ہے جس کی آبادی 80لاکھ ہے جبکہ بھارت کی آبادی 2۔1 ارب ہے۔ ہمارے دونوں ملکوں کی معشیتوں کی قدرتی مناسبت اور دونوں ملکوں کے درمیان قدرتی روابط کو دیکھتے ہوئے یہ عجیب سی بات لگتی ہے۔ ہمیں اس پر زیادہ کام کرنا ہوگا.

  • تعلیم:ہمارے بہترین اور ذہین ترین طلبہ کاایک دوسرے کے ملک میں تعلیم حاصل کرنا دونوں ملکوں کے درمیان پائیدار روابط تعمیر کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔ لیکن بہت کم برطانوی طلبہ بھارت آتے ہیں اور برطانیہ آنے والے بھارتی طلبہ کی تعداد بھی کم ہوئی ہے۔ہم اپنی یونی ورسٹیوں کی طرف مزید بھارتی طلبہ کومتوجہ کرنا چاہتے ہیں۔اوراسی طرح میں چاہتا ہوں کہ مزیدبرطانوی طلبہ اس شاندار ملک میں تعلیم کے لئے آئیں.

  • خارجہ پالیسی:جیسا کہ میں نے ابھی کہابرطانیہ اور بھارت خارجہ پالیسی امور پرعام طورسے مشترکہ تجزئیے کرتے ہیں۔اس وقت کمی ان امور کو نمٹانے میں مشترکہ اقدام کی ہے۔ ہمیں چاہئیے کہ خارجہ پالیسی کے بڑے اور علاقائی امور پر مزیدمل کر کام کریں.

افغانستان

اور افغانستان اس کی ایک مثال ہے جہاں میں سمجھتاہوں کہ ہم مل کر یہ سب کرسکتے ہیں.

پہلا نکتہ:افغانستان ہمارے لئے اہم ہے۔وہ حکمت عملی کے لحاظ سے اہم ہے کیونکہ ایک غیر مستحکم افغانستان اس پورے خطے اور ہمارے دوستوں بشمول بھارت کے لئے خطرہ ہوگا۔ یہ ہماری سلامتی کے لئے اہم ہے کیونکہ اگر افغانستان دوبارا دہشت گردوں کی پناہگاہ بن گیا تو وہ نہ صرف پڑوسیوں بلکہ برطانیہ کے لئے بھی خطرہ ہوگا۔ یہ سیاسی اور ذاتی طور بھی اہم ہے کیونکہ برطانیہ نے افغانستان میں قیمتی لہو اور خزانہ صرف کیا ہے۔ ہمیں یہ یقینی بنانا ہوگا کہ جو بھاری قیمت ہمارے جری مرداور خواتین فوجیوں نے ادا کی ہے ان کی قربانیوں کا نتیجہ اس کے مطابق نکلے۔

نکتہ دوئم -ان سب کی وجہ سے برطانیہ 2014ء کے بعد بھی افغانستان سے نہیں نکلے گا۔ ہماری لڑاکا فوج واپس چلی جائےگی۔ لیکن افغانستان بہت اہم ہے اور اب بھی بہت کمزور کہ عالمی برادری اسے تنہا چھوڑ دے، یہ ممکن نہیں۔ لہذا برطانیہ مستقبل میں تاحد نطر وہاں عمیق طور سے جڑا رہے گا۔۔ہم خاص طور سے ان شعبوں میں مدد کریں گے:

  • افغانستان کی سلامتی کی یقین دہانی۔ ہم اپنی سلامتی کا تحفظ افغانوں کو ان کی سلامتی سنبھالنے میں مدد کرکے ہی کر سکتے ہیں۔ لہذا برطانیہ افغان نیشنل آرمی (اےاین اے)کی ترقی میں معاونت کرے گا جو کابل کے نزدیک واقع افغان نیشنل آرمی آفیسرزاکیڈیمی کی رہنمائی اور تربیت کے ذریعے ہوگی جسے عام طور پر ‘‘سینڈہرسٹ ان دا سینڈ’‘کہاجاتا ہے۔۔ ہم اے این اے کوقائم رکھنے کے لئے 2014ء کے بعد بھی کافی امداد فراہم کرتے رہیں گے۔

  • افغانستان کی ترقی کا فروغ۔ برطانیہ کم ازکم2017ء تک ترقیاتی امدادکی مد میں سالنہ 30کرور ڈالر سے زیادہ دیتا رہے گاتاکہ اب تک حاصل ہونےوالی پیش رفت رائیگاں نہ جائے.

  • افغانستان کی جمہوریت کی معاونت۔ ہم اس سال انتخابات کی کامیابی کے لئے افغانستان کی مدد کریں گے۔ ہم ان اداروں کی تشکیل میں مدد دے رہے ہیں جن سے اچھی حکومت سازی، قانون کی حکمرانی، احتساب اوردیرپا استحکام کی یقین دہانی ہوسکے۔ اس کے ایک حصے کے طور پر ہم طالبان سے براہ راست بات چیت کی کوششوں کی حمایت کرتے ہیں۔افغانستان میں کوئی بھی دیرپا سیاسی تصفیہ مشمولی ہونا چاہئیے۔ لیکن یہ بات چیت افغانستان کی قیادت میں ہونا ضروری ہے اور طالبان کے ساتھ اس وقت تک کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہئیے جب تک وہ دہشت گردی سے لاتعلقی اور افغان ائین سے وابستگی کا اعلان نہ کریں.

تو افغانستان کے امکانات کیا ہیں؟اچھے ہیں بشرطیکہ ہم اس راہ پر چلتے رہیں۔.

ہم پیش رفت کررہے ہیں۔اے این اے ہر لمحہ بہتری کی طرف گامزن ہے اور اس وقت تقریبا تمام افغان آبادی کے تحفظ میں قائدانہ کردار ادا کررہی ہے۔ ملک بھر میں معاشی ترقی عیاں ہے۔افغانستان کی فی کس قومی آمدنی 2001ء سےدس گنا بڑھ گئی ہے اور کابل ایک پھلتا پھولتاہوا تجارتی مرکز بن گیاہے۔ تعلیم بہتر ہورہی ہے: تقریبا 60 لاکھ افغان بچے اب اسکول جاتے ہیں جن میں20 لاکھ سے زائدلڑکیاں ہیں۔ اور اگرکامیاب ترقی کے لئے کوئی واحد جادوئی گولی ہے تو وہ ہے لڑکیوں کو تعلیم دلانا۔ صحت بہتر ہورہی ہے: عمر کا دورانیہ دس سال میں 18 فی صدبڑھ گیاہے۔حکومت سازی بہتر ہورہی ہے: اس سال صدارتی انتخابات یادداشت میں پہلی بار جمہوری اقتدار کی پر امن منتقلی کا ذریعہ ہونگے۔ زیادہ سے زیادہ افغان ووٹ دینے کے لئے تیار ہیں اور وطن واپس جارہے ہیں.

ہم تسلیم کرتے ہیں کہ بھارت کے افغانستان میں اہم مفادات ہیں۔اور بھارت کو وہاں اہم کردار ادا کرنا ہے۔بھارت کو افغان عوام کااعتماد حاصل ہے:رائے عامہ کے سروےسے باقاعدگی سےمعلوم ہوتا ہے کہ افغان کسی بھی غیر ملک سے زیادہ بھارت کا احترام کرتے ہیں۔ بھارت کی قربت اور اس کا حجم آنے والے سالوں میں افغانستان میں ایک کلیدی کراد ادا کرے گا۔ بھارت کی خوشحالی اور افغانستان سے قریبی تجارتی روابط ملک کی معیشت کی ترقی اور برقراری میں اہم کردار ادا کریں گے۔ بھارت کا 2 ارب ڈالر کا امدادی پروگرام افغانستان کی ترقی میں بڑا کردار ادا کررہاہے،جو بڑے انفرااسٹرکچر منصوبوں جیسے توانائی اور سڑکیں اور زراعت،تعلیم اور صحت کے فروغ کے چھوٹے مقامی منصوبوں ، دونوں کے لئے ہے.

بھارتی حکومت افغانستان میں جو کچھ کررہی ہے اس کی طرح نجی بھارتی کاروباروں کی بھی اہمیت ہے۔ بھارتی کمپنیاں افغانستان میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری کرنے والوں میں ہیں۔ گزشتہ برس بھارتی کمپنیوں کے ایک کنسورشیم نے فولاد کی کانکنی کا 10 بلین ڈالر کا معاہدہ حاصل کیا۔دیگر بھارتی کمپنیاں معدنیات، صحت اور تعلیم میں مزیدسرمایہ کاری کے لئے کوشاں ہیں۔اگلے عشرے میں عالمی امداد بتدریج اور بجا طورپر کم ہوتی جائیگی: اور جب یہ ہوگا تو بھارت کی قیادت میں نجی شعبے کاکردارایک خوشحال اور مستحکم افغانستان کے قیام میں پہلے سے زیادہ اہم ہوگا۔

لہذا افغانستان برطانیہ اور بھارت دونوں کے لئے بہت اہم ہے اور ہم دونوں افغانستان کے لئے۔ اسی لئے مجھے یقین ہے کہ اگلے چند سال میں افغانستان کو پرامن، خوشحال اورجمہوری ملک بنانے کے لئے جیسا کہ ہم اسے دیکھنا چاہتے ہیں، برطانیہ اور بھارت کے پاس مل کر کام کرنے کی گنجائش موجود ہے.

اس کے لئے پہلا قدم افغانستان پر ایک دوسرے کے ساتھ مزید بات چیت ہے تاکہ ہمارے مشترکہ مفادات مشترکہ اقدامات کی شکل اختیار کر سکیں۔ اس کے لئے ہمارے دونوں وزرائے اعظم نے فروری 2013ء میں اتفاق کیا تھا کہ افغانستان میں امن، تحفظ اور ترقی کے لئے ایک مشترکہ ورکنگ گروپ تشکیل دیا جائے گا۔ اس کا اجلاس اگلے ہفتے دہلی میں ہورہا ہے۔ہم اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ جائزہ لیں گے کہ افغانستان کی ویسی تشکیل کے لئے جیسا کہ ہم اسے دیکھنا چاہتے ہیں اور جیسا کہ اس کے عوام کا حق ہے،ہم کس طرح مزید قریبی تعاون سے کام کرسکتے ہیں.

.

Updates to this page

شائع کردہ 8 جنوری 2014