''علاقائی ہلچل سےاسرائیل- فلسطین تنازع کے حل کی اہمیت مزید واضح ہوتی ہے۔''."
اقوام متحدہ میں برطانوی مشن کے سفیرمارک لائل گرانٹ کا سلامتی کونسل میں مشرق وسطی کی صورتحال بشمول فلسطینی سوال پرمباحثے میں بیان
شام کے سیاسی تصفئیے کی ضرورت پہلے سے زیادہ شدید ہوگئی ہے۔ اس کا کوئی فوجی حل نہیں۔ پائیدارامن کا طریقہ صرف شامی فریقین کے درمیان باہمی معاہدہ ہے۔
اب آئیے مشرق وسطی امن عمل کی طرف ۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اس ساٹھ سالہ تنازع کا واحد تصفیہ ایک مذاکراتی دو ریاستی حل کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ ہمیں اس میں ییش رفت سےمعاونت کے لئے بین الاقوامی کوششوں کوبحال کرنا ہوگا تاکہ ایک معاہدے کی طرف سنجیدگی سے بڑھا جا سکے۔ فریقین کو خود بھی مذاکرات کی طرف لوٹنا چاہئیے تاکہ غزہ میں پائِیدار جنگ بندی ہو اورتنازع کی حقیقی وجوہ سے نمٹا جائے۔ فلسطینیوں کو فلسطینی اتھارٹی کے غزہ میں واپس لانے کے لئے ٹھوس قدم اٹھانا ہونگے جس کی ابتداسرحدی کراسنگز سے ہوگی۔ اسرائیل کو غزہ کی مدد برآمدات، توانائی اور پانی کی فراہمی کے ذریعے کرنا ہوگی۔ مصرکو اپنا ثالثی کا کرداردوبارہ شروع کرنا ہوگااوررفاح کےکھولنے میں لچک کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔عطیات دہندگان کو اپنے وعدے جلد ازجلد پورے کرنا ہونگے۔ علاقائی ہلچل جس کا ہم مشاہدہ کررہے ہیں، اسرائیل – فلسطین تنازع کے حل کی ضرورت کومزیدواضح کرتی ہے۔ دونوں فریقین کو اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ وہ زمینی حقائق میں بہتری کے لئے کس طرح مل کر کام کرسکتے ہیں۔ یہ واضح ہے کہ دونوں فریقین کو سمجھوتوں سے کام لینا ہوگا۔ اسرائیل کو اپنی غیر قانونی اور مطلق غیر ضروری نوآبادیاتی تعمیر کو بند کرناہوگا جوایسالگتا ہے کہ دوریاستی حل کوکمزور کرنے کے لئے کی جارہی ہے۔ اس کے بجائے انہیں معاشی پابندیوں کو نرم کرنا ہوگا اورفلسطینی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں دور کرنا ہونگی۔ مزید برآں جب فلسطینی اپنی ریاست کے لئے قانونی بین الاقوامی راستے تلاش کررہے ہیں انہیں یہ سمجھنا ہوگا کہ اسرائیل سے مذاکرات کا کوئی متبادل نہیں ہوسکتا۔ برطانیہ سمجھتا ہے کہ سلامتی کونسل کو اس باب میں ایک واضح قرارداد اپنانے کی ضرورت ہے جو پرامن اورمذاکراتی حل کی حدود متعین کردے۔ لیکن اس کے لئے صحیح مشاورت کی ضرورت ہے تاکہ کونسل کی مکمل حمایت حاصل ہوسکے۔
مشرق وسطی پر کھلی بحث میں کیونکہ یہ میری آخری شرکت ہے اس لئے سلامتی کونسل کے سابق اور موجودہ اراکین کا ان کوششوں پرشکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جو ان امورکے تصفئیے کے لئے گزشتہ پانچسال میں انہوں نےکی ہیں ۔ لیکن یہ بڑے دکھ کی بات ہے کہ اس دوران شام اور مشرق وسطی امن عمل پر بڑی پیش رفت نہ ہوسکی۔ اراکین کی جانب سے مقاصد کے مزید اتحاد اور اپنے مفادات کو ایک طرف رکھنے کی مزید کوشش کی ضرورت ہوگی تاکہ ان دشوارامور پرمستقبل میں قابو پایا جاسکے۔