تقریر

”شائستہ اطوار والی خواتین بہت کم تاریخ ساز ہوتی ہیں“

بھارت میں برطانوی ہائی کمشنر سرجیمز بیون کی تقریرجودواشاعتوں '' ڈی کوڈنگ دا لاء'' اور ''اے گائیڈ فار سروائیورز آف سیکشوئل وائلینس'' کے موقع پر کی گئی۔

اسے 2010 to 2015 Conservative and Liberal Democrat coalition government کے تحت شائع کیا گیا تھا
Human Rights Day

آج انسانی حقوق کا دن ہے۔ انسانی حقوق سب کے لئے ہیں اورسب جگہ کے لوگوں کے لئے ہیں۔آزادئی نسواں بھی سب کے لئے ہے یا ہونا چاہئیے، کیونکہ آزادئی نسواں یہ انقلابی نظریہ ہے کہ خواتین بھی ایک فرد ہیں.

لہذا مجھے اپنے آزادئی نسواں کے حامی ہونے پر نازہے۔ مجھے تمام لوگوں کے انسانی حقوق اور خاص طورپردنیاکی نصف آبادی یعنی خواتین کے انسانی حقوق کی حمایت کرنے کے لئے یہاں آنے پر فخر ہے ۔ اور مجھے خواتین کے خلاف کسی بھی مقام پر جنسی تشدد کے خلاف، اپنی ذاتی اوربرطانوی حکومت کی حمایت، کے مظاہرے پر فخر ہے.

یہ میرے لئے ذاتی اشو ہے۔ مجھے تین بیٹیوں کا باپ ہونے پرفخر ہے۔ میں ان خواتین کو جانتاہوں، جو دوستوں میں، خاندان میں اور ساتھیوں میں جنسی تشدد کا نشانہ بنی ہیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ اس کا کتنا برا اثر پڑتا ہے۔اور اپنے کیرئیر میں، میں نے ایک بڑی سادہ اورمثبت بات بھی سیکھی ہے کہ : کامیاب پیش رفت کے لئے ایک جادوئی گولی ہوتی ہے اور اسے دو لفظوں میں بیان کیا جاسکتا ہے:لڑکیوں کوپڑھاؤ۔ تعلیم یافتہ لڑکیاں بااختیارعورتیں بنتی ہیں۔ بااختیار عورتیں اپنا مستقبل خود بناتی ہیں اورایسا کرتے ہوئے سب کے مستقبل کی بہتری کا سبب بن جاتی ہیں.

جنسی تشدد صرف بھارت کامسئلہ نہیں۔ یہ ایک عالمی وبا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ دنیا کی ہر تین میں سے ایک عورت اپنی زندگی میں کسی نہ کسی وقت جنسی استحصال یا تشدد کا نشانہ بنتی ہے۔ تاہم حقیقی اعدادو شمار اس سے کہیں زیادہ ہیں.

ہمیں برطانیہ میں بھی عورتوں پر جنسی تشدد کاسامنا ہے۔ یہ میری حکومت کے لئےاہم مسئلہ ہے۔ برطانوی حکومت دنیا بھر میں اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کرعورتوں سے امتیازاورجنسی تشدد کے خلاف لڑنے کے لئے کام کرتی ہے.

اس وقت کے سکریٹری خارجہ ولیم ہیگ نے ایک عالمی پیش قدمی کی بنیاد رکھی تھی جو جنسی تشدد سے تحفظ کے لئے تھی۔ ہمارا مقصد ملکوں،اداروں، اورکمیونٹیز میں اسے روکنے، متاثرین کی مدد کرنے اوراس کے ذمے داروں کے باب میں چشم پوشی کے خاتمے کی اہلیت میں اضافہ کرنا ہے۔اس سال کے آغاز میں لندن میں ہم نے جنسی تشدد کی روک تھام کے لئے سب سے بڑی سربراہی کانفرنس کی میزبانی کی۔ ہمیں اس پر فخر ہے کہ برطانیہ کی یہ پیش قدمی اب ایک بڑی بین الاقوامی پیش قدمی بن چکی ہے.

بھارت کو عورتوں پرتشدد اورامتیاز کے اپنے مسائل کا سامنا ہے۔ ہرسال عالمی اقتصادی فورم کی ایک رپورٹ ‘عالمی جنسی عدم مساوات’ (Global Gender Gap) پرشائع ہوتی ہے جس میں دنیا کےمختلف ملکوں کی خواتین کی صورتحال کا موازنہ کیا جاتا ہے۔اس رپورٹ میں ہرملک کے مرداورعورتوں کے درمیان معیشت ، سیاست، تعلیم وصحت اوربقا کی شرح میں فرق کی پیمائش کی جاتی ہے.

اس کی تازہ ترین رپورٹ برائے 2014 ء میں 142ملکوں کو جائزہ لیا گیا ہے یہ نسوانی مساوات کی درجہ بندی ہے۔ سب سے اوپر آئس لینڈ ہے۔ برطانیہ 26ویں نمبرپر ہے۔ بھارت کا نمبر 114 ہے۔عورتوں کی صحت اوربقا کے لحاظ سے جس میں صنفی تعداد اور صحت مندانہ زندگی کی شرح کے اعتبار سے بھارت کا مقام اور بھی نیچے ہے یعنی 142 میں سے141واں.

لہذا کوئی بھی سنجیدگی سے اس بات کو تسلیم کرنے سے انکارنہیں کرے گا کہ بھارتی عورتوں اورلڑکیوں کو آج بڑے مسائل کا سامنا ہے۔ مجھ سے زیادہ آپ کوان مسائل کاعلم ہے۔ لیکن اس سے بھی کوئی انکارنہیں کرے گا کہ بھارت نے حالیہ برسوں میں ان مسائل سے نمٹنے میں نمایاں پیش رفت کی ہے.

اور یہ پیش رفت جرأت مند افراد - مرداورعورت دونوں کی وجہ سے ممکن ہوئی ہے جنہوں نے اس کے لئے جدوجہد کی۔ وہ ہرجگہ پائے جاتےہیں، اوریہاں اپنے تین سال کے دوران اور بھارت کی 29ریاستوں میں سے ہرایک کا دورہ کرنے کے بعد میں بھی ان میں سے کچھ سے مل پایاہوں.

ان میں سے کچھ متاثر کن شخصیات حکومت میں ہیں: یہاں مرکز میں اور ریاستی سطح پر بھی، ان میں سیاستداں اوربیوروکریٹس ہیں،ضلعی کونسلراور پینچایتوں کے سربراہ ہیں، جو خواتین کی زندگی بہتر بنانے کے لئے خود کو وقف کرچکے ہیں۔ وہ آپ کو بھارتی قانونی نظام میں ملیں گے- جرأت مند جج، وکلا اورمردوعورت پولیس اہلکار جو خواتین کے حقوق کے لئے جدوہجہد کررہے ہیں۔آپ ان سے پارلیمنٹس اور یونی ورسٹیوں یں، کاروباروں اور این جی اوز میں ملتے ہیں۔ اورآپ ان کوگمنام دیہاتوں میں پاتے ہیں جہاں شاید ہی کوئی جاتاہو۔ لیکن وہ وہاں پہنچے ہوئے ہیں، اوراس عظیم ملک کی بے شمار عورتوں کی زندگی میں بتدریج بہتری لارہے ہیں.

اس جدوجہد میں ممتازکردارادا کرنے والے کئی لوگ آج یہاں اس موقع پرموجود ہیں اورمیں آپ میں سےہرایک کو سلیوٹ کرتا ہوں۔ لیکن بے شمار اہم ترین افرادایسے بھی ہیں جو گمنام ہی رہیں گے۔ یہ وہ عام لوگ ہیں جو مقامی سطح پردنیا کو عورتوں اور لڑکوں کے لئے بہتر بنانے کی جدوجہد کررہے ہیں۔ آئیے آج ان کو بھی سلیوٹ کریں۔

امریکی مصنفہ ایلس واکر نے کہا تھا کہ عام طور پرلوگ اپنا اختیار اس وجہ سے کھودیتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ا ن کے پاس اختیار ہے ہی نہیں۔ ہمارے پاس اختیار ہوتا ہے، ہم سب کے پاس ہے اوراکثر اس سے زیادہ ہے جتنا کہ ہمیں علم ہے۔ اس کو سمجھنا اہم ہے اوراس اختیارکو کیسے استعمال کیا جائے یہ بھی سمجھنا چاہئیے۔

جیسا کہ یہ سمجھنا اہم ہے کہ آپ کے کچھ حقوق ہیں اور یہ جاننا بھی کہ ان کا احترام کیا جارہا ہے۔

اسی لئے میں ان دواشاعتوں کی حمایت میں آج یہاں آکر خوشی محسوس کررہا ہوں جو آج ہندی میں شائع ہوئی ہیں۔ یہ لوگوں کو ان کی اپنی زبان میں اختیار دیں گی – خاص طور پران عورتوں اور لڑکیوں کو جنہوں نے خود جنسی تشدد یا ہراسانی کا سامنا کیا ہے۔ اختتام سے پہلے میں اپنا ایک پسندیدہ قول آپ کو سناؤں گا جو میری بیٹیاں اکثر میرے سامنے دہراتی ہیں:’’ “شائستہ اطوار والی خواتین بہت کم تاریخ ساز ہوتی ہیں” میں آج شائستہ اورغیر شائستہ اطوار کی حامل ان تمام عورتوں کو سلیوٹ کرتا ہوں جنہوں نے تاریخ بنائی ہے۔

Updates to this page

شائع کردہ 10 دسمبر 2014